توشہ خانہ کیس: نااہلی کے خلاف عمران خان کی درخواست پر ہائیکورٹ کا فل بینچ تشکیل

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2022
درخواست میں عمران خان کی توشہ خانہ میں نااہلی کی سزا کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے — فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
درخواست میں عمران خان کی توشہ خانہ میں نااہلی کی سزا کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے — فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے فل بینچ تشکیل دے دیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کی سزا کے خلاف محمد جابر عباس خان درخواست پر سماعت کے لیے تین رکنی فل بینچ تشکل دے دیا۔

تین رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی کریں گے جبکہ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس عابد عزیز شیخ اور ساجد محمود سیٹھی شامل ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کا تین رکنی فل بینچ 9 جنوری 2023 کو درخواست پر سماعت کرے گا۔

میانوالی کے حلقہ 95 سے ووٹر جابر علی نے اپنے وکیل اظہر صدیق کے ذریعے درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ ہے جس میں الیکشن کمیشن کے کسی رکن اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد یہ معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بجھوا دیا تھا اور درخواست پر سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی تھی۔

درخواست میں عمران خان کی توشہ خانہ میں نااہلی کی سزا کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں کابینہ ڈویژن، وزارت پارلیمانی امور، وزارت اورسیز، الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

پس منظر

واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل ہیں، سابق وزیر اعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں