آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر، ڈالر کا بحران، اسٹاک ایکسچینج میں 523 پوائنٹس کی کمی

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2022
معاشی ماہرین نے معاشی غیر یقینی  صورتحال،آئی ایم ایف نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر کو مندی کی وجہ قرار دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
معاشی ماہرین نے معاشی غیر یقینی صورتحال،آئی ایم ایف نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر کو مندی کی وجہ قرار دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کے بینچ مارک ’کے ایس ای 100 انڈیکس‘ میں مسلسل دوسرے روز گراوٹ دیکھنے میں آئی۔

کے ایس ای 100 انڈیکس 523 پوائنٹس یا 1.32 فیصد کمی کے بعد 39 ہزار 276 پوائنٹس پر بند ہوا، ایک موقع پر دوپہر 2 بج کر 41 منٹ تک انڈیکس 679 یا 1.71 فیصد کمی ہو ئی تھی۔

معاشی ماہرین نے معیشت کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر، زرمبادلہ کے بحران اور شرح تبادلہ میں عدم استحکام کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمتوں میں کمی کی وجوہات قرار دیا۔

انٹرمارکیٹ سیکیورٹیز میں ایکویٹی ہیڈ رضا جعفری نے کہا کہ مارکیٹ میں مندی کا رجحان ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہے، جس میں آئی ایم ایف کے جائزے کی تکمیل میں تاخیر اور سعودی عرب سے متوقع ڈالر کی آمد میں تاخیر بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ٹھیک یقین دہانی کرائی کہ آئی ایم ایف پروگرام کی تعمیل کی جائے گی لیکن اس کے باوجود مارکیٹ میں منفی رجحان ہے کیونکہ سرمایہ کار اقدامات کے ذریعے الفاظ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

عارف حبیب کارپوریشن سے منسلک احسن محنتی نے کہا کہ پاکستانی روپے کا عدم استحکام اور صنعت کاروں پر غیر ملکی کرنسی کے بحران کے اثرات کی وجہ سے اسٹاک میں مندی کا رجحان دیکھا گیا۔

مالیاتی اور ڈیٹا اینالیٹکس ویب پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق رواں مالی سال کے آغاز سے ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی 19 روپے 6 پیسے یا 8.52 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔

دوسری جانب اوپن مارکیٹ سے ڈالر غائب ہوگیا ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں بحران کے باعث غیر ملکی ادائیگیاں تعطل کا شکار ہیں، اس صورتحال میں ملک ایئرلائنز کے واجبات کی ادائیگیاں کرنے اور بندرگاہوں پر آنے والے درآمدی سامان کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے، لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے جس کی وجہ سے کئی کمپنیوں نے درآمدی خام مال کی کمی کی وجہ سے پیداوار عارضی طور پر روک دی ہے۔

احسن محنتی نے مزید کہا کہ سیاسی غیر یقینی صورتحال، دسمبر میں مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات اور حکومت کے پیٹرولیم لیویز اور بجٹ میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ کی سہولت (ای ایف ایف) کے جائزے میں تاخیر پر تشویش نے مارکیٹ میں مندی کے رجحان میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان نے 2019 میں 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی جسے رواں سال کے شروع میں بڑھا کر 7 ارب ڈالر کردیا گیا تھا۔

پروگرام کا نواں جائزہ جس کے تحت ایک ارب 18 کروڑ ڈالر جاری ہونے ہیں فی الحال زیر التوا ہے، مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی گئی بعض شرائط کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے 2 ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا اور اختلافات تاحال باقی ہیں۔

گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس عالمی مالیاتی فنڈ کے پروگرام پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور اسے ’تکلیف دہ حقیقت‘ قرار دیا۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بھی آج کہا کہ پاکستان، آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی اپنی کمٹمنٹ اور وعدوں کو پورا کرے گا۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی تکمیل کرے جب کہ اس کے کم زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی درآمدات پوری کرنے کے لیے بھی بمشکل ہی کافی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں