وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ عوام کے اندر یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ عمران نیازی کو عدالتی استثنیٰ حاصل ہے اور عدالت سے این آر او ملتا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو توہین عدالت میں نااہل کر دیا جاتا ہے۔

لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ عمران خان خاتون جج کی توہین کرے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کو روندے لیکن ان کو استثنیٰ حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ادب سے عرض کررہا ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہیے کہ ایک شخص آئین اور قانون کو روندتا ہے لیکن اس کی کوئی باز پرس نہیں ہے، معیار سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔

احسن اقبال نے کہا کہ حال ہی میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی بہت چیمپئن بنی ہے، سوال کرنا چاہتا ہوں کہ پنجاب میں کس نے بلدیاتی اداروں کا گلا گھونٹا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 50 ہزار سے زائد بلدیاتی نمائندوں کو کس نے غیر آئینی طور پر فارغ کیا تھا، سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ انہیں غیر آئینی طور پر برطرف کیا گیا لیکن جب سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کیا تو کس نے 7 مہینوں تک سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فٹ بال کھیلی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑائیں لیکن کبھی کسی نے عمران خان اور وزیراعلیٰ سے نہیں پوچھا کہ یہی بتا دیں کہ ہمارے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کررہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میری عدلیہ سے ادب کے ساتھ درخواست ہے کہ عوام کے اندر یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ عمران نیازی کو عدالتی استثنیٰ حاصل ہے، عمران نیازی کو عدالت سے این آر او ملتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو تو توہین عدالت میں نااہل کر دیا جاتا ہے لیکن عمران نیازی ججوں کی توہین کرے، خاتون جج کی توہین کرے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کو روندے مگر ان کو استثنیٰ حاصل ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کسی بھی ملک کے اندر آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے، ادب سے عرض کر رہا ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہیے کہ ایک شخص آئین اور قانون کو روندتا ہے لیکن اس کی کوئی باز پرس نہیں ہے، معیار سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 2018 کے بعد 6 فیصد ترقی کو پہلے سال 1.7 اور اگلے سال منفی ترقی میں پھینک دیا گیا، اس کی وجہ بغیر سوچے سمجھے روپے کی قدر میں کمی کرنا تھی اور پالیسی ریٹ کو ڈبل کرنا تھا، اس نے ملک کو مہنگائی اور قرضوں کے چنگل میں جکڑ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 سے 2022 تک پاکستان کی معیشت لڑکھڑاتی رہی، آخری سال 6 فیصد ترقی کا دعویٰ کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری شرح نمو منفی تھی، جب کم بینچ مارک ہوتا ہے تو تھوڑی سی ترقی بھی ابھر کر نظر آتی ہے لیکن مجموعی طور پر پاکستان کی معاشی صلاحیت کو تباہ کیا گیا۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ 2018 میں ہم قرضوں کی مد میں 1700 ارب روپے کے قریب ادا کرتے تھے، 23-2022 میں یہ بوجھ 5 ہزار ارب کے قریب پہنچ چکا ہے، اس میں تقریباً 3 گنا اضافہ پی ٹی آئی کی حکومت کرکے گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے تمام وسائل قرضوں کی ادائیگی میں جا رہے ہیں، باقی اخراجات اور خسارے پورا کرنے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہوگی کیا یہ صورت حال ایک آزاد ملک کے لیے قابل قبول ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج دو راہے پر کھڑے ہیں اگر ہم بھی سیاسی فیصلے کریں تو ایسا گڑھا کھود کر جائیں گے کہ جس سے نکلنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں ہوگا، موجودہ حکومت نے پاکستان کی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایک قومی چیلنج عائد کیا ہے، کسی سیاسی مصلحت کے تحت حکمرانی نہیں کر رہے، قومی مفاد کے تحت حکمرانی کر رہے ہیں، اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اور امن و امان کی صورت حال کسے نارمل کریں۔

وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت دہشت گردی کی اس جنگ کو جسے ہم 2018 میں جیت کر گئے تھے، اسے بھی انہوں نے نظر انداز کیا اور 4 برسوں میں مسلسل ایسے اقدامات کیے گئے جن کے ذریعے سے دہشت گردوں کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملا، پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو اس میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک آئینی ملک ہے، کوئی ایسا گروہ جو پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا، اس کے لیے پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے، بنیادی حقوق آئین میں دیے گئے ہیں، پاکستان کی اس شناخت کو جو پاکستان کا آئین اسے بحیثیت اسلامی جمہوریہ پاکستان دیتا ہے، کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، لہٰذا کچھ چیزیں سیاست سے بالاتر ہیں۔

’معیشت اور امن پر سیاست نہیں کی جاسکتی‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اور پاکستان کا امن دو ایسے شعبے ہیں کہ جن میں کوئی سیاست نہیں کی جاسکتی، اس لیے امید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی جو پاکستان ہی کی ایک سیاسی جماعت ہے اور عمران خان اس ملک کے ساتھ دشمنی روا نہیں رکھیں گے، وہ اس ملک کے مفادات کا خیال کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کوئی پاکستان کا دشمن ملک حتیٰ کہ ہمسایہ ملک یا اس کے کسی میڈیا چینل میں اس کے کسی مبصر کی زبان سے ابھی تک میں نے یہ لفظ نہیں سنا کہ خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے لگا ہے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت اور عمران خان مسلسل پاکستان کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ برپا کیے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صبح شام ایک خوف پیدا کرتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے لگا ہے، اس سے ہائبرڈ جنگ کہا جاتا ہے، جس میں ملک کے دشمن ملک کے اندر سے ایسی نفسیاتی جنگ پیدا کرتے ہیں کہ جس سے اس ملک کے حوصلے اور امیدوں کو اور اس ملک کی امنگوں کو کچل دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ قوم مایوسی کے اندھیروں میں بھٹک جاتی ہے، تو اس کو ختم کرنے کے لیے گولی نہیں چلانی پڑتی، وہ خود اپنے ہی اس عمل کے نتیجے میں تباہ ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت پر تو زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان مشکلات کو سمجھے جو وہ پیچھے ورثے میں چھوڑ کر گئی ہے۔

’پی ٹی آئی کو تعمیر میں حصہ نہیں لی سکتی تو زبان بند رکھنی چاہیے‘

احسن اقبال نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی ملک کی تعمیر میں حصہ نہیں لی سکتی تو کم از کم انہیں زبان بند رکھنی چاہیے کہ ہم ملک کا مزید نقصان نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور عمران نیازی مسلسل پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں، پاکستان کے حوالے سے بدگمانیاں پھیلا رہے ہیں، پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کو ملنے والی بیرونی امداد کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ جو اتنے بڑے سیلاب کے نتیجے میں ہمیں ملنی تھی اور ان شااللہ ملے گی، اس امداد کو روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مسلسل مہم چلا رہے ہیں کہ آپ پاکستان کی مدد نہ کریں کیا یہ پاکستانیت ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی شناخت اس کا وجود اس کی سیاست پاکستان سے بڑی ہے تو وہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہے اور وہ دیکھے گا کہ اس کا بت پاش پاش ہوگا لیکن پاکستان ان بحرانوں سے کامیابی سے آگے بڑھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد نے تہیہ کیا ہے کہ ہم مشکل فیصلے کریں گے لیکن پاکستان کو اس بحران سے نکالیں گے، 2013 میں بھی ہمیں شکستہ حال پاکستان ملا تھا لیکن دو سے تین سال میں اس کی سمت بدل دی تھی، 2022 میں بھی ہمیں شکستہ حال پاکستان ملا ہے لیکن ان شا اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہم 2 سے 3 سال میں بدل کر 5 سال کے اندر اندر اسی ترقی کے سفر پر گامزن ہوگا، جیسے 18-2017 میں پاکستان ترقی کے سفر پر گامزن تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ 2023 میں ہم ملک کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں امن اور استحکام لا کر امن و بھائی چارہ اور یک جہتی کو فروغ دیں گے، اقتصادی چیلنجز کا سامنا کریں گے اور ملک میں دہشت گردی کو شکست دیں گے۔

’ٹیکنو کریٹ حکومت کا آئین میں کوئی وجود نہیں‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کا آئین میں کوئی وجود نہیں ہے کہ کسی قسم کی ٹیکنو کریٹ حکومت ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کو بحال رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کی شرط ہے کہ ان شرائط کو پورا کریں جو حکومت نے ہمارے ساتھ طے کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک راستہ یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے معاہدے سے پیچھے ہٹ جائیں، اگر ہم معاہدے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو اس کی قیمت اس سے بہت زیادہ ہے کہ جو ہم آئی ایم ایف کا معاہدہ پورا کرتے ہوئے شرائط جو پچھلی حکومت کر گئی ہے اس پر عمل درآمد کرکے تھوڑی سی تکلیف کاٹیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر پیٹرول کو عالمی قیمتوں کے مطابق رکھنے کی شرط پوری کرنی پڑتی ہے، ہمیں اگر سبسڈیز ختم کرنا پڑتی ہیں تو یہ سب کی سب وہ شرائط ہیں جو آئی ایم ایف کے ساتھ عمران نیازی ہم پر مسلط کرکے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت تجارت تیزی کے ساتھ چند ممالک سے بارٹر معاہدے کر رہی ہے، جس سے ہماری کافی مشکلات آسان ہوں گی، ہم افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بھی بارٹر تجارت کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں