اپوزیشن نے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2023
فیصلہ تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کے خدشے کی پیش نظر کیا گیا — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
فیصلہ تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کے خدشے کی پیش نظر کیا گیا — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان اور ڈپٹی اسپیکر واثق قیوم کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام اس خدشے کی بنیاد پر کیا گیا کہ اپوزیشن، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے خفیہ رائے شماری میں 186 ووٹ حاصل نہیں کر سکے گی اور انہیں ہٹانے میں ناکامی اپوزیشن کے ان دعووں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

علاوہ ازیں یہ فیصلہ دونوں تحاریک پر رائے شماری کے لیے 9 جنوری کو ہونے والے اسمبلی اجلاس کو سبطین خان کی جانب سے ری شیڈول کرنے کے امکان کے پیش نظر کیا گیا۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کو ایوان میں 186 ووٹ درکار ہیں۔

پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اپوزیشن کے پاس ایوان میں 180 ووٹ ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے پاس 190 ووٹ ہیں۔

دوسری جانب اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کو شو آف ہینڈز کے ذریعے 186 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بحال کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن پہلے ہی پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے چکی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں، اس لیے تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا فیصلہ اپوزیشن کو شرمندگی سے بچانے کے لیے کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں اعتماد کے ووٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو شکست دینے پر توجہ دینی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کے ارکان صوبائی اسمبلی کو ان کی قیادت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن کے لیے اگر پنجاب میں حکومت بنانے کا کوئی امکان موجود ہے تو اس مقصد کے لیے وزیر اعلیٰ کا رن آف الیکشن ہی سب سے اہم چیز ہوگا‘۔

شریف خاندان کے قریبی ساتھی نے بتایا کہ ’مسلم لیگ (ن) کے بہت سے ارکان، پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کے فیصلے سے ناخوش ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’قیادت کے اس فیصلے پر کچھ منظور نظر لوگ اثر انداز نظر آتے ہیں جو مرکز میں بیٹھ کر پنجاب میں پارٹی کے معاملات دیکھ رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد ضرور لانی چاہیے تھی، اس سے کم از کم پارٹی کی جارحانہ حکمت عملی نظر آتی اور اس بات کا اندازہ ہوجاتا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے ساتھ یا اس کے بغیر پنجاب میں کہاں کھڑے ہیں، ممکنہ شکست کا خوف پیچھے ہٹنے کی واحد وجہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’اگر ہم خفیہ رائے شماری کے ذریعے اسپیکر کو نہیں ہٹا سکتے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر پائیں گے؟‘

تبصرے (0) بند ہیں