پی ٹی آئی نے کراچی اور حیدرآباد ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی ہائیکورٹ میں چیلنج کردی

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2023
پی ٹی آئی نے درخواست اپنے رکن صوبائی اسمبلی بلال احمد غفار کے توسط سے دائر کی—فائل فوٹو: وکی میڈیا کومنز
پی ٹی آئی نے درخواست اپنے رکن صوبائی اسمبلی بلال احمد غفار کے توسط سے دائر کی—فائل فوٹو: وکی میڈیا کومنز

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل 6 اضلاع میں ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری بلدیات کو نوٹس جاری کردیے۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس کوثر سلطانہ حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو وفاقی اور صوبائی حکام کی جانب سے اپنے متعلقہ بیانات جمع کرانے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔

پی ٹی آئی نے 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے قبل مختلف صوبائی محکموں سے 6 افسران کے تبادلے اور کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کو چیلنج کیا تھا۔

درخواست میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری بلدیات، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمشنر کو مدعا علیہ کے طور پر نامزد کیا گیا۔

پی ٹی آئی نے اپنے رکن صوبائی اسمبلی بلال احمد غفار کے توسط سے دائر درخواست میں کہا کہ ’یہ معلوم ہوا ہے کہ چیف سیکریٹری سندھ انتخابات سے قبل دھاندلی میں مصروف ہیں، انہوں نے صوبائی الیکشن کمشنر کی جانب سے تبادلوں اور تعیناتیوں پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے اعلیٰ بیوروکریٹ نے بدنیتی، من مانی، امتیازی سلوک اور الیکشن کمیشن کی پیشگی تحریری منظوری کے بغیر مجموعی طور پر 6 افسران کے تبادلے کر کے ان کی خدمات صوبائی محکمہ بلدیات کے سپرد کر دی ہیں تاکہ ان کی بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کی جا سکے۔

درخواست گزار نے مزید کہا کہ بعد ازاں سیکریٹری محکمہ بلدیات نے ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن کو کے ایم سی ایڈمنسٹریٹر، ندیم الرحمٰن کو کمشنر حیدرآباد، سید شکیل احمد کو ڈی ایم سی شرقی کا ایڈمنسٹریٹر، فرقان عطیب اور محمد شریف کو ڈی ایم سی سینٹرل اور کورنگی کا ایڈمنسٹریٹر جبکہ محمد فاروق کو بطور ایڈمنسٹریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن مقرر کیا گیا۔

پی ٹی آئی وکیل شہاب امام نے مؤقف اختیار کیا کہ ان افسران کا سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن، سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ، لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ سے ٹرانسفر کیا گیا تھا اور الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 5(4) کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری کردہ غلط نوٹیفکیشن کے تحت محکمہ بلدیات کے اختیار میں دے دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بات قابل ذکر ہے کہ نگران حکومت بھی الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230(2)(ایف) کے تحت تبادلوں اور تعیناتیوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی اہل نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ صدر پی ٹی آئی سندھ اور ان کے قانونی مشیر نے غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمشنر کو آگاہ کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے اپنا آئینی فرض ادا نہ کیا اور تاحال کوئی کارروائی نہیں کی۔

وکیل نے یاد دہانی کروائی کہ درخواست گزار نے الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر سندھ کو خطوط بھیجے تھے لیکن انہوں نے چیف سیکریٹری اور سیکریٹری بلدیات کے خلاف افسران کے تبادلوں اور تعیناتیوں کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے کر کوئی مناسب کارروائی نہ کی۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ چیف سیکریٹری کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالت سے مزید استدعا کی گئی کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے اختتام تک حکام کو ان افسران کے تبادلے اور تعیناتیوں سے روک دیا جائے۔

درخواست میں الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمیشن کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی آئینی ذمہ داری ادا کرنے کی ہدایت دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں