جماعت اسلامی کا الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنے سے دستبرداری کا اعلان

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2023
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ سندھ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا خط غیر قانونی ہے—فوٹو: ڈان نیوز
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ سندھ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا خط غیر قانونی ہے—فوٹو: ڈان نیوز

الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی، حیدرآباد اور دادو میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے سندھ حکومت کے فیصلے کو مسترد اور 15 جنوری کو الیکشن کے انعقاد کے اعلان کے بعد جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنے کے اعلان سے دستبردار ہو گئی ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے 15جنوری کو کراچی، حیدرآباد اور دادو میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے احتجاجاً کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے جمعہ کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا خط غیر قانونی ہے، انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ حکومت کے اس اقدام کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ازخود نوٹس لے۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ الیکشن سے دو دن پہلے نوٹیفکیشن کے ذریعے انتخابات ملتوی کردیں، الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق جب انتخابات کا اعلان ہوجائے تو حلقہ بندیوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج 3 بجے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنا ہوگا اور عوام سے بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جماعت اسلامی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ ایم کیوایم کی جانب سےحلقہ بندیوں پر تحفظات کے پیش نظر حکومت سندھ نے رات گئے کراچی، حیدر آباد اور دادو میں 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

’سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر عوام کے حقوق پر شب خون مارا‘

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ رات کی تاریکی میں سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کراچی اور حیدرآباد کے عوام کے حق پر شب خون مارا اور ایک بار پھر عوام کو ان کے آئینی، جمہوری اور سیاسی حق سے محروم کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا مسلسل جمہوریت اور کراچی دشمن رویہ اس لیے تقویت حاصل کرتا ہے کیونکہ انہیں ایم کیو ایم جیسے لوگ میسر ہیں جنہوں نے ہمیشہ کراچی کا مینڈیٹ وڈیروں اور جاگیر داروں کو بیچا ہے۔

’ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی کی سہولت کار ہے‘

انہوں نے کہا کہ یہ وڈیرے اور جاگیر دار اپنے مقامی ہاریوں، کسانوں، مظلوموں اور محروموں کا استحصال کرتے ہیں اور اپنی جیبیں اور پیٹ بھرتے ہیں اور ایم کیو ایم ہمیشہ پیپلزپارٹی کے جونیئر پارٹنر کے طور پر سہولت کار بنتی ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے انہوں نے سوال کیا کہ پیپلزپارٹی نے مارچ 2022 میں انتخابات ملتوی کرنے کا نوٹیفیکشن واپس کیوں نہیں لیا تھا جب رجیم چینج کے موقع سارے لوگ بہادرآباد جارہے تھے، اس وقت ایم کیو ایم نے کراچی کا حق کیوں نہیں حاصل کیا؟، کراچی خاص طور پر مہاجر عوام کو بیچنے کی پوری تاریخ ہے جس کا مینڈیٹ لے کر ایم کیو ایم ہمیشہ پیپلزپارٹی سے سودا بازی کرتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے دو روز قبل نوٹیفیکشن جاری کرکے انتخابات کو التوا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے سوال کیا کہ جب یہ جماعتیں صوبے میں 2008 سے 2017 تک اقتدار میں رہیں تب یہ لوگ کہاں تھے؟ اسی دوران جب 2013 کا آرڈیننس آیا جس کے تحت سارے اختیارات چھینے گئے تھے، اس وقت بھی حلقہ بندیاں ٹھیک نہیں تھیں لیکن ایم کیو ایم نے الیکشن بھی لڑا، اتحاد بھی برقرار رکھا اور وزارتوں کے مزے بھی لوٹے اور کراچی کے ایک ایک محکمے میں سندھ حکومت نے قبضے کرلیا اور بلدیاتی اداروں کو محروم کیا اور ایم کیو ایم ان کی سہولت کار بنی رہی، آج بھی یہی عمل جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹبیبلشمنٹ کے کچھ لوگ جو پوری فوج کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں، پاک فوج کے غیرسیاسی ہونے کے اقعدام کو سبوتاژ کررہے ہیں اور اپنی مرضی کی جوڑ توڑ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پچھلی دور حکومت کی وفاقی کابینہ کا حصہ تھی، اس کابینہ نے مردم شماری میں کراچی کی گنتی آدھی کردی تھی، اس فیصلے میں بھی ایم کیو ایم شریک جرم تھی، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے کراچی کے لوگوں کی پیٹھ میں چھُرا گھونپا ہے، ان جماعتوں کا اتحاد 3 سے 10 بھی ہوجائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

’عوام کے مینڈیٹ سے خوفزدہ ہوکر الیکشن ملتوی کیے گئے‘

جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے خبر دار کیا کہ اگر کراچی میں بدمعاشی کرنے کی کوشش کی گئی تو شریف لوگ بتا دیں گے کہ بدمعاشوں کو کیسے روکا جاتا ہے اور اوقات بھی معلوم ہوجائے گی۔

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے پر اربوں روپے کرپشن ، گھٹیا الزامات اور ’را‘ کے ایجنٹوں کا الزام لگانے والے لوگ ایک ہوگئے ہیں۔

آپ کہتے ہیں احتجاج کریں گے پیپلزپارٹی دھوکا دے رہی ہے، جھوٹ بول رہی ہے، یہ لوگ عوام سے خوف زدہ ہیں اس لیے انتخابات نہیں کرانا چاہتے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو جو خط گیا اس کی قانونی طور پر کوئی گنجائش نہیں، چیف الیکشن کمشنر کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سندھ حکومت کو خط واپس کرے اور از خود نوٹس لے۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے اعلان کیا کہ آج 3 بجے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنا ہوگا، عوام بڑی تعداد میں شریک ہوں، دھرنے میں جماعت اسلامی اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی اور اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگی۔

انہوں نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ عوام کو سہولت فراہم نہیں کرسکتے اور چور دروازے سے ایڈمنسٹریٹر بننا چاہتے ہیں لیکن یہ ساری سازشیں ناکام ہوں گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو جماعت اسلامی قانونی جنگ کے ساتھ سڑکوں پر جدوجہد کرے گی، اگر انتخابات نہ کروائے گئے تو عوام سڑکوں پر ہوں گے، دھرنے طویل ہوسکتے ہیں اور جب تک وقت پر الیکشن کروانے پر اعلان نہیں ہوجاتا احتجاج کو پورے شہر میں بڑھائیں گے۔

تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ حکومت کا فیصلہ مسترد کیے جانے کے اعلان کے بعد جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنے کے فیصلے سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔

پس منظر

واضح رہے کہ رات گئے سندھ حکومت نے کراچی، حیدر آباد اور دادو سمیت دیگر اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ اعلان گزشتہ رات پیپلزپارٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد ہوا تھا، اجلاس کی صدارت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت صوبائی وزرا اور دیگر نے شرکت کی تھی۔

صوبائی وزیر شرجیل میمن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اجلاس میں پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے مطالبات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات تیسری بار التوا کا شکار ہوئے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کی مدت 30 اگست 2020 کو ختم ہوگئی تھی جبکہ الیکشن کمیشن اس کے بعد 120 دن کے اندر کرانے کا پابند ہوتا ہے۔

انتخابی عمل اصل میں 24 جولائی 2022 کو ہونے والی تھے لیکن ملک بھر بالخصوص سندھ میں سیلاب کی وجہ سے انتخابی عمل ملتوی کرنا پڑا تھا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے 28 اگست 2022 کو بلدیاتی انتخابات کا شیڈول دوبارہ ترتیب دیا، لیکن کراچی میں سیلاب کی صورتحال اور پولیس اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے انہیں دوبارہ مؤخر کر دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں