جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا بِل آئینی پیچیدگیوں میں گُم

14 جنوری 2023
فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022 کے عنوان سے یہ بل 7 جون 2021 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022 کے عنوان سے یہ بل 7 جون 2021 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا بل تاریخی قرار دیتے ہوئے سراہے جانے کے بعد تاحال التوا کا شکار ہے کیونکہ مجوزہ قانون کو جن قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے بارے میں آئین خاموش ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022‘ کے عنوان سے یہ بل 7 جون 2021 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور اسی برس کے آخر میں 8 نومبر کو منظور کیا گیا تھا، بعد ازاں یہ بل منظوری کے لیے سینیٹ میں پہنچا جہاں اس میں 20 اکتوبر 2022 کو منظوری سے قبل مزید ترمیم کی گئی۔

آئین یہ حکم دیتا ہے کہ ترمیم شدہ بل کو اسی ایوان میں واپس آنا چاہیے جہاں یہ پیش کیا گیا ہو، اس لیے یہ بل ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچا، معمول کے طریقہ کار کے مطابق سینیٹ کی جانب سے کی گئی ترامیم کے ساتھ قومل اسمبلی میں یہ بل منظور کر لیا جانا تھا۔

لیکن قومی اسمبلی نے مزید ترامیم کیں اور پھر 21 اکتوبر 2022 کو اس بل کو منظور کر لیا، اس طرح یہ بل آئینی پیچیدگیوں میں گُم ہوگیا۔

رہنما پیپلز پارٹی اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کو لکھے گئے ایک تازہ خط میں اس پیچیدگی سے باہر نکلنے کا راستہ بتایا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ’مجھ سے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے رجوع کیا گیا کہ کیا قومی اسمبلی کی جانب سے کی گئی نئی ترمیم کے نتیجے میں بل کو غور اور منظوری کے لیے سینیٹ میں واپس بھیجا جائے گا یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا‘۔

اپنے خط میں رضا ربانی نے کہا کہ ’پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ایوان میں ترامیم کے ساتھ منظور ہونے والا بل دوسرے ایوان میں اِن ترامیم اور اضافی ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا‘۔

انہوں نے خط میں آئین کے آرٹیکل 70 کا بھی حوالہ دیا جس میں قانون سازی کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ آرٹیکل کے مطابق کوئی بھی بل جو دونوں میں سے کسی ایک ایوان میں پیش اور منظور ہوا اسے دوسرے ایوان کو بھیجا جائے گا، اگر یہ بل دوسرے ایوان سے بغیر کسی ترمیم کے منظور کرلیا گیا تو یہ منظوری کے لیے صدر کے پاس جائے گا۔

تاہم آرٹیکل نے ایسی کسی صورت حال سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں بنایا جس میں ایک ایوان میں بل پیش ہونے کے بعد اس میں دوسرے ایوان سے ترامیم کے بعد دوبارہ اسی ایوان میں مزید ترامیم کی جائیں۔

اپنے خط میں رضا ربانی نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے رولنگ دیں کہ حکومت قومی اسمبلی سے ترمیم شدہ بل کی منظوری کے لیے تحریک واپس لینے کی درخواست پیش کر سکتی ہے۔

رضا ربانی نے تجویز دی کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے قاعدہ 256 کے تحت اسپیکر یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے، اس کے بعد حکومت اس بل کو منظور کرنے کے لیے تحریک پیش کر سکتی ہے جسے ترمیم کے بعد سینیٹ سے منظور کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا کہ قومی اسمبلی نے سینیٹ کی جانب سے واپس کیے گئے بل میں ترمیم کرکے بے ضابطگی کا ارتکاب کیا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’قومی اسمبلی میں ترامیم اور اس کے بعد بل کی منظوری کو کالعدم کرنے کی ضرورت ہے، پھر قومی اسمبلی سینیٹ کی جانب سے ترمیم کے مطابق قانون کو منظور کردے گی یا بل کو مشترکہ اجلاس میں بھیج دیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں