اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے لیے پالیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس آج طلب کرلیا ہے، دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے خبردار کیا ہےکہ اگر الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق 6 رکنی کمیٹی کا اجلاس آج (20 جنوری) سہ پہر 3 بجے اسمبلی چیمبر میں ہوگا۔

آئین کے آرٹیکل 224 اے کے تحت تشکیل دیا گیا پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس 6 قانون سازوں پر مشتمل ہے جس میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں کی یکساں نمائندگی ہوگی۔

پنجاب کی حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کی نمائندگی سابق وزیر راجا بشارت، میاں اسلم اقبال اور ہاشم جواں بخت کریں گے۔

جبکہ اپوزیشن کی نمائندگی وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک محمد احمد خان، پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ اور ملک ندیم کامران کریں گے۔

کمیٹی میں پرویز الہیٰ اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی جانب سے نگران وزیراعلیٰ کے نام پر مشاورت کی جائے گی اور کسی ایک نام پر اتفاق رائے کے ذریعے معاملے کو حتمی شکل دی جائے گی۔

قانون کے مطابق کمیٹی کے پاس معاملہ بھیجے جانے کے بعد نگران وزیراعلیٰ کے نام پر 3 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی نے نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق نہ کیا تو معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو 2 روز کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔

پرویز الہیٰ نے نگران وزیراعلیٰ کے لیے 3 نام تجویز کیے تھے (حالانہ آرٹیکل 224 اے کے تحت صرف دو نامزدگیوں کی اجازت ہوتی ہے)۔

پرویزالہیٰ نے جو نام تجویز کیے ان میں سابق چیف سیکریٹری ناصر محمود کھوسہ، حاضر سروس بیوروکریٹ (کیبنٹ ڈویژن سیکریٹری) احمد نواز سکھیرا اور (وزیراعلیٰ کے رشتے دار) نصیر خان شامل ہیں۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے سابق بیوروکریٹ اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی احد چیمہ اورمیڈیا ہاؤس کے مالک محسن نقوی کو نامزد کیا تھا۔

پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کے لیے اسپیکر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن نے تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔

درحقیقت دو نوٹی فکیشن جاری کیے گئے تھے جس میں پہلا نوٹی فیکشن 3 بجے میڈیا کو شیئر کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ کمیٹی کا اجلاس دوپہر 2 بجے ہوگا۔

دوسرا نوٹی فیکشن شام 6 بجکر 50 منٹ پر میڈیا کو جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پرویز الٰہی نے نگران وزیراعلیٰ کےلیے احمد نواز سکھیرا اور سابق چیف سیکریٹری نوید اکرم چیمہ کو نامزد کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے نامزد امیدواروں کی تبدیلی پر اعتراض کیا، پارلیمانی کمیٹی کے رکن ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی جانب سے تجویز کی گئی نامزدگیوں کو پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کرنے کے بعد ناموں میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

ناصر محمود کھوسہ کے نگران وزیراعلیٰ بننے سے انکار کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے پارلیمانی پارٹی کو بھیجے جانے والے ناموں کو تبدیل کرنے پر غور کیا تھا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ’ہم قانون کی اس خلاف ورزی کو قبول نہیں کریں گے اگر یہ تنازع جاری رہا تو پارلیمانی پارٹی نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق نہیں کرسکے گی اور یہ معاملہ پھر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا۔

دوسری جانب پرویز الہیٰ نے دھمکی دی ہے کہ وہ پنجاب میں الیکشن کمشن کا بنایا ہوا نگران وزیراعلیٰ کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔

لاہور میں قرآن پاک پورٹل کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کا بنایا ہوا نگران وزیراعلیٰ نہیں چلنے دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن کی نیت اور سوچ کا پتا ہے، الیکشن کمیشن تو روزانہ عمران خان کے خلاف کیسز بنا رہا ہے، ہم چیف الیکشن کمشنر کے بنائے ہوئے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدالت جائیں گے۔

پرویز الہیٰ نے کہا کہ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ کے لیے جو نامزدگیاں کی ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) کے حامی بھی شامل ہیں کیونکہ ان میں سے ایک نامزد امیدوار احمد نواز سکھیرا وزیر اعظم شہباز شریف کے کابینہ سیکرٹری ہیں، جبکہ جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت ناصر محمود کھوسہ چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں۔

عمران خان کی پارلیمانی پارٹی سے ملاقات

اس کے علاوہ زمان پارک میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کمیٹی کے ارکان کا اجلاس ہوا جس میں عمران خان نے کہا کہ عام انتخابات میں تاخیر کسی قیمت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کو ملکی معیشت برباد کرنے کی اجازت دینا بے وقوفی ہوگی۔

پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کو پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے امیدوار پر اتفاق رائے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی سے مذاکرات کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

انہوں نےکہا کہ آزادانہ، منصفانہ انتخابات کا انعقاد سنگین معاملہ ہے اور صرف بہترین صلاحیت کے حامل نگران حکومت ہی یہ ذمہ داری نبھا سکتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انتخابات کی شفافیت کو خطرے میں ڈالنا ملک دشمنی کے مترادف ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں