پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے اور اسی سلسلے میں سال کی پہلی انوائرمنٹل سیمپل رپورٹ میں حوصلہ افزانتائج سامنے آئے ہیں جب کہ 37 شہروں سے جمع کیے گئے سیوریج سیمپل میں وائرس نہیں پایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم کراچی کے بعد ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے لیے گئے سیمپلز کا ٹیسٹ مثبت آیا جس کے بعد حکام نے 26 یونین کونسلز میں ویکسینیشن مہم کا آغاز کردیا۔

جاری کردہ ایک بیان کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے جنوری 2023 میں ڈسٹرکٹ لاہور کے علاقے گلشن راوی سے حاصل کیے گئے سیمپل میں ٹائپو ون وائلڈ پولیو وائرس کے پائے جانے کی تصدیق کی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ رواں سال پاکستان میں پایا جانے والا پہلا مثبت ماحولیاتی نمونہ ہے۔

گزشتہ سال ملک بھر سے 37 انوائرمنٹل سیمپل مثبت پائے گئے تھے۔

پاکستان میں پولیو خاتمے کے پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد بیگ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جب کہ بنوں، ڈیرہ اسمٰعیل خان، پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، کراچی سمیت جنوبی خیبر پختونخوا کے علاقوں کے سیمپل منفی پائے گئے۔

گزشتہ برسوں کے دوان ان شہروں میں مثبت نمونے رپورٹ ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاہور سے صرف ایک نمونہ مثبت پایا گیا اور پروٹوکول کے مطابق ان 26 یوسیوں میں مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جہاں کا سیمپل مثبت پایا گیا۔

ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ لاہور کا ماحولیاتی نمونہ 2022 کے دوران تین مرتبہ مثبت آیا تھا لیکن دسمبر میں منفی پایا گیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ سال کی پہلی پولیو مہم کامیابی سے جاری ہے۔

انہوں نے والدین سے پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملک سے وائرس کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔

سیوریج سیمپل ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کا پتا لگانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، اگر کسی علاقے سے حاصل کیے گئے گئے نمونوں میں وائرس پایا جاتا ہے تو اسے مثبت کہا جاتا ہے، یہ نمونے پولیو مہم کی کامیابی کا تعین کرنے کے لیے بنیادی پیرامیٹر ہیں۔

سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی بچوں میں قوت مدافعت کی کمی کو بھی ظاہر کرتی ہے اور ان میں وائرس لگنے کے خطرات کو بڑھادیتی ہے۔

دنیان میں پاکستان اور افغانستان ہی وہ 2 ممالک ہیں جہاں یہ وائرس اب بھی پایا جاتا ہے۔

2022 میں ملک میں 20 بچے اس وائرس سے مفلوج ہوئے، ان تمام کا تعلق خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سے تھا، خطرناک وائرس سے متاثر 20 بچوں میں سے 17 کا تعلق شمالی وزیرستان، 2 کا لکی مروت اور ایک کا جنوبی وزیرستان سے تھا۔

2022 میں کیسز رپورٹ ہونے سے قبل تقریباً 15 ماہ تک پاکستان میں ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں