سپریم کورٹ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پاکستان کے اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں تاخیر کے حوالے سے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان کے اٹارنی جنرل کا عہدہ اکتوبر 2022 سے خالی ہونے پر برہمی کا اظہار کیا گیا تھا تاہم ابھی تک اس اہم عہدے پر کسی شخص کو تعینات نہیں کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ کیا حکومت اتنی نااہل ہے کہ ایک اٹارنی جنرل نہیں لگاسکتی؟

تاہم اسلام آباد میں سماعت کے دوران جسٹس طارق محمود جہانگیر نے اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں تاخیر کے حوالے سے وجوہات طلب کرلیں۔

سماعت کے دوران سابق ایڈیشنل آڈیٹر جنرل عرفان جہانگیر وٹو کی جانب سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے خلاف دائر درخواست پر جسٹس طارق محمود نے سماعت کی تھی۔

جسٹس طارق محمود نے جب کیس میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کیا تو اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ملک محمد اقبال نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کا عہدہ خالی ہے۔

جج نے وزیر قانون کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 2 ہفتوں کے اندر تفصیلات سے آگاہ کیا جائے کہ اس عہدے پر ابھی تک کسی شخص کو تعینات کیوں نہیں کیا گیا؟

قبل ازیں عدالت نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کو احکامات کی تعمیل میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرفیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کا انتباہ دیا۔

عدالت میں سابق ایڈیشنل آڈیٹر جنرل عرفان جہانگیر وٹو نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس) اور دیگر امتحانات کے انعقاد کے لیے ’ہدایات‘ کے نام سے قواعدکی پیروی کر رہا ہے۔

تاہم ان قواعد یا ہدایات کو قانونی اعانت حاصل نہیں ہے کیونکہ اسے وفاقی حکومت نے کبھی منظور نہیں کیا۔

انہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے ویب سائٹ پر موجود بی ایس-16 یا اس سے اوپر درجے کے عہدے پر نئی تقرریوں کے حوالے ہدایات کو چیلنج کیا۔

سابق آڈیٹر جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے آرڈیننس 1977 کے قواعد نمبر 10 کے تحت کمیشن کے بجائے وفاقی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن شائع کرکے مقابلے کے امتحان اور سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں کے حوالے سے قوانین کا مسودہ تیار کرے۔

عرفان جہانگیر وٹو نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری ہدایات آرڈیننس کے قواعد نمبر 10 کے تحت نہیں آتیں، انہوں نے عدالت سے ان قوانین کو کیس سے الگ کرنے کی درخواست کی۔

جسٹس طارق محمود نے عدالت کے حکم کے باوجود رپورٹ جمع نہ کروانے پرفیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حکام پر برہمی کا اظہار کیا۔

7 اکتوبر 2022 کی سماعت کے دوران عدالت نے ایف پی ایس سی کو جواب دینے کے لیے 2 ہفتے کا وقت دیا تھا۔

تاہم تین ماہ کا وقت گزرجانے کے بعد بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے عدالت کے احکامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر (قانون) نے رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید 2 ہفتوں کا وقت مانگنے کی استدعا کی۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو 2 ہفتوں کے اندر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر احکامات کی تعمیل نہ کی گئی تو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کو ذاتی طور پر پیش ہونے اور عدالت کے احکامات پر عمل میں تاخیر کی وجہ بتانے کے لیے طلب کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں