حکومت نے تعطل کا شکار قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات تسلیم کرنے کے چند روز بعد 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے لیے 2 مسودہ آرڈیننس تیار کرلیے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاور سیکٹر کی سبسڈی کو ختم کرنے اور ایکسپورٹ سیکٹر (خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت کاروں) کے لیے خام مال پر سیلز ٹیکس لگانے پر بھی غور کر رہی ہے۔

یہ ایسے اقدامات جو انتخابات کے سال میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی اعتبار سے بھاری پڑ سکتے ہیں، بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی سینیئر نائب صدر مریم نواز شریف (جو لندن میں تقریباً 4 ماہ قیام کے بعد گزشتہ روز وطن واپس پہنچ گئی ہیں) وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا بڑھ چڑھ کر دفاع کررہی ہیں اور قوم سے اپیل کی ہے کہ بگڑتے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اسحٰق ڈار پر اعتماد رکھیں۔

اسحٰق ڈار کی پالیسیوں کے ناقد سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بھی کہا کہ حکومت کی پالیسیاں درست سمت پر ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

ملک کی اعلیٰ ٹیکس مشینری کی جانب سے تیار کردہ ان دونوں مسودہ آرڈیننس میں سے ایک آرڈیننس 100 ارب روپے کے نئے ٹیکسز اور دوسرا درآمدات پر 100 ارب روپے کے فلڈ لیوی کے نفاذ سے متعلق ہے۔

ایک ٹیکس عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے دونوں آرڈیننس تیار کر لیے ہیں، ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح اور لگژری آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ ہوگا، علاوہ ازیں روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے لیے اضافی آمدنی کی بھی توقع ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے درآمدات پر فلڈ لیوی وصول کی جائے گی جسے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف نے پی ڈی ایل سے متعلق 300 ارب روپے کے شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے اور وزارت خزانہ سے کہا ہے کہ وہ پیٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر لیوی 35 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ 31 جنوری کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اگلے جائزے میں متوقع ہے، جس کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20 سے 40 روپے فی لیٹر اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ان پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد 31 جنوری کو بات چیت کے لیے آئی ایم ایف ٹیم کی اسلام آباد آمد متوقع ہے۔

یہ اقدمات سیاسی وجوہات کی بنا پر تقریباً 4 ماہ تک موخر کر دیے گئے تھے کیونکہ اِن کے سبب پہلے سے موجود شدید مہنگائی میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے قرض دینے سے انکار کے بعد حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑیں۔

تاہم اس عرصے کے دوران معاشی نقصان ہوچکا ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کئی سال کی کم ترین سطح پر آ کر 3 ارب 68 ڈالر رہ گئے جوکہ 3 ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں۔

اسحٰق ڈار نے ستمبر میں عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف اور حکومتی ٹیم کے چند عہدیداروں کی شدید مخالفت کے باوجود ڈالر کو قابو کرنے کے لیے اپنی مشہور حکمت عملی پر عمل کیا۔

ابتدائی طور پر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 240 سے 220 پر آکر کچھ مضبوط ہوا تو کچھ فوائد ضرور حاصل ہوئے لیکن یہ فوائد پائیدار نہیں تھے کیونکہ ذخائر میں مسلسل کمی آتی رہی جس کی بنیادی وجہ برآمدات میں کمی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں