پشاور میں پولیس لائنز کے قریب مسجد میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے میں شہید ہونے والے افراد کی تعداد 101 ہوگئی ہے اور پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس دھماکے کے حوالے سے اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دھماکے کا ایک اور زخمی دم توڑ گیا، جس کے بعد شہید ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 101 ہوچکی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ صوبے بھر میں ہسپتالوں میں اس وقت 59 زخمی موجود ہیں جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے، جن میں سے 8 کی حالت تشویش ناک ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ ہسپتال میں 101 لاشیں لائی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس وقات ہسپتال میں دھماکے کے 49 زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے اور ان میں سے 7 زخمی آئی سی یو میں ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد کو طبی امداد کے بعد ہسپتال سےگھروں کو بھیج دیا گیا ہے۔

اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں، پولیس

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پشاور پولیس چیف اعجاز خان نے کہا کہ بم دھماکے سے متعلق اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس تفتیش کر رہی ہے کہ خود کش بمبار کیسے پولیس کے ہائی سیکیورٹی کے علاقے میں داخل ہوا اور حملے کے لیے اندر سے مدد کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ روز انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سیکیورٹی میں خامی کے نتیجے میں حملہ ہوا جس کی تفتیش سٹی پولیس چیف کررہے ہیں جبکہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں انٹیلیجنس افسران بھی شامل ہیں جو سہولت کاری کرنے والوں کو تلاش کریں گے۔

آئی جی نے کہا تھا کہ وہاں پر کینٹینز ہیں اور تعمیراتی کام بھی ہو رہا تھا اور بظاہر دھماکا خیز مواد کم مقدار میں لایا جاتا رہا ہے اور وہاں پر ایک شکایتی مرکز بھی قائم ہے، جس کی وجہ سے عام عوام کا وہاں آنا جانا رہتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ حملہ اور سول افراد کے بھیس میں داخل ہوا تھا، عوام کا پولیس لائن میں آنا جانا بہت زیادہ رہتا ہے، جس وقت آیا ہو گا خودکش جیکٹ نہیں پہنا تھا، اندر آنے کے بعد پہنا ہو گا اور مسجد میں گیا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 کلو سے زائد بارودی مواد استعمال ہوا ہے اور زیادہ نقصان چھت گرنے سے ہوا۔

’ریاست کہاں ہے‘

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران پشاور مسجد میں دھماکے سے متعلق بات کی گئی جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم کب تک دہشت گردوں سے ڈرتے رہیں گے‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دینا چاہیے اور وہ دینا چاہیے، بعض اوقات کہا جتا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہیئں، اس سب میں ریاست کہاں ہے‘۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے سوال کیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کیوں کیے جا رہے تھے، آج انہوں نے دو لوگوں کو مارا تو کل وہ 5 لوگوں کو ماریں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کسی کو اس کی لمبی داڑھی کی وجہ سے ایک اچھا مسلمان نہیں کہا جاسکتا ہے۔

پشاور دھماکے پر بات کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم کس طرح کے معاشرے میں رہ رہے ہیں، ہمارے ایک جج کو قتل کردیا گیا، کسی کو خیال نہیں ہے۔

’خوف واپس آگیا ہے‘

دوسری جانب پشاور کے شہریوں نے پولیس لائنز کے قریب مسجد میں پیش آنے والے واقعے پر کہا کہ خوف واپس آگیا ہے۔

پشاور میں تعمیرات کے شعبے سے منسلک 55 سالہ نعیم اللہ جان نے کہا کہ اصل خوف دوسرے حملے اور مزید دھماکوں کا ہے، خودکش بمبار کسی مارکیٹ میں پھٹ سکتا ہے۔

ایک اور شہری فیصل خان کا کہنا تھا کہ شہر میں زندگی مشکل بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ہمیں ہر چیک پوسٹ پر روکتی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اب مسجد میں جانے سے گریز کر رہے ہیں اور گھر میں ہی نماز ادا کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں