افغانستان: خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج پر لیکچرار گرفتار

اپ ڈیٹ 03 فروری 2023
لیکچرر اسمٰعیل مشعل سڑکوں پر مفت کتابیں فراہم کرتے تھے—فوٹو: امو ٹی وی ترکیہ
لیکچرر اسمٰعیل مشعل سڑکوں پر مفت کتابیں فراہم کرتے تھے—فوٹو: امو ٹی وی ترکیہ

افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کیے جانے کے خلاف ٹیلی ویژن پر احتجاج کرنے والے یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق شعبہ صحافت کے معروف لیکچرار اسمٰعیل مشعل نے طالبان حکام کی طرف سے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے گزشتہ سال دسمبر میں ٹی وی پر اپنی ڈگری اور سرٹیفکیٹس پھاڑ کر پھینک دیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں اسمٰعیل مشعل کو کابل میں راستے میں ملنے والے شہریوں کو کتابیں پیش کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

لیکچرار اسمٰعیل مشعل کے ساتھی فرید احمد فضلی نے کہا کہ افغان طالبان اسمٰعیل مشعل پر بے رحمانہ تشدد کرتے ہوئے انہیں انتہائی تضحیک آمیز انداز میں لے گئے۔

افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے وزیر عبدالحق حماد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اپنے جاری بیان میں لیکچرار کو گرفتار کرنےکی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’استاد کافی عرصے سے نظام کے خلاف اشتعال پھیلانے میں مصروف تھا اس لیے سیکیورٹی اداروں نے ان سے تفتیش کے لیے انہیں اٹھایا ہے‘۔

اسمٰعیل مشعل کے ساتھی فرید احمد فضلی نے کہا کہ وہ کابل میں متعدد جامعات میں پڑھا چکے ہیں جن کو گزشتہ روز بغیر کسی جرم کے اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ مرد اور خواتین کو مفت کتابیں فراہم کر رہے تھے جو ابھی تک تحویل میں ہیں اور ہمیں پتا نہیں کہ ان کو کہاں رکھا گیا ہے‘۔

افغان طالبان کے اقتدار کے دوران خواتین کی حمایت میں کسی مرد کا احتجاج کم ہی ہوتا نظر آیا ہے لیکن ایک شریک تعلیمی ادارہ چلاتے والے لیکچرار اسمٰعیل مشعل نے کہا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے۔

لیکچرار نے کہا کہ بحیثیت انسان اور ایک استاد میں خواتین کی تعلیم کے لیے کچھ کرنے سے قاصر تھا اس لیے میں نے اپنے سرٹیفکیٹس ناکارہ سمجھتے ہوئے پھاڑ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں آواز اٹھا رہا ہوں، اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں، میرا احتجاج جاری رہے گا چاہے میری زندگی چلی جائے‘۔

واضح رہے کہ اگست 2021 میں حکومت پر قابض ہونے کے بعد افغان طالبان نے عالمی برادری سے آسان یہ معمول کی حکومت قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد انہوں نے اپنے وعدوں کی نفی کرتے ہوئے نہ صرف خواتین کو ملازمتوں سے نکالا بلکہ انہیں مردوں کے علاوہ سفر کرنے سے روکتے ہوئے یہاں تک کہ ان کی اعلیٰ تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

علاوہ ازیں گزشتہ برس دسمبر میں طالبان حکام نے ملک میں کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) کو ہدایات جاری کیں کہ وہ خواتین کو ملازمتوں پر نہ رکھیں جس کے بعد تمام اداروں نے اپنی سرگرمیاں معطل کرنا شروع کر دیں۔

بعدازاں صحت کے شعبے میں کچھ رعایت کرتے ہوئے انہوں نے خواتین کو ملازمتوں پر جانے کی اجازت دی۔

افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول ایک سال سے بند پڑے ہیں جبکہ کئی خواتین سرکاری شعبوں میں نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں اور انہیں پارکوں، جمز اور عوام میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں