خیبرپختونخوا: دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف شہریوں کا احتجاج

03 فروری 2023
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شہری دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے—فوٹو: عمر باچا
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شہری دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے—فوٹو: عمر باچا

خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف مختلف علاقوں میں سیکڑوں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔

خیبرپختونخوا میں ہونے والے دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے خلاف سیکڑوں شہری سڑکوں پر نکل کر امن کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ملک بھر میں بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں متعدد دہشت گردی کے حملے ہو چکے ہیں جبکہ پنجاب کے شہر میانوالی میں بھی ایسا واقعہ ہوا ہے اور اسلام آباد میں بھی دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بنایا گیا تھا۔

خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ میں مقامی انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کی جانب سے متعدد علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

ریلی میں شریک شہریوں نے سفید جھنڈے لہراتے ہوئے 30 جنوری کو پشاور میں بھیانک حملے میں شہید ہونے والوں کے لیے انصاف اور علاقے میں پائیدار امن کے قیام کا مطالبہ کیا۔

دہشت گردی کے خلاف احتجاجی ریلی کا آغاز نواحی علاقے کروڑا سے ہوا اور ضلعی ہیڈکوارٹرز الپوری میں پہنچنے پر ایک بہت بڑے اجتماع میں تبدیل ہوگئی جس میں سیکڑوں شہریوں نے شرکت کی۔

ریلی میں شریک رہنماؤں نے کہا کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے مگر وہ اس میں دلچسپی کے بجائے صرف سیاسی معاملات میں مصروف ہیں۔

اے این پی رہنما محمد یار خان نے کہا کہ پشاور میں ہونے والا سانحہ سب سے بڑی ناقص سیکیورٹی کا نظام ہے اور سوال کیا کہ ایسے حساس علاقے میں ایک خودکش بمبار کیسے داخل ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر نکلنے کا سب سے اہم مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقے میں مکمل امن قائم کرنا ہے۔

محمد یار خان نے کہا کہ ہم کسی کو بھی صوبے کا امن خراب کرنے نہیں دیں گے، مزید کہا کہ اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کیا کر رہی ہے اور لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما غلام اللہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی پولیس کا خون اتنا سستا نہیں ہے کہ افسران کو گلی اور مساجد میں قتل کیا جائے جہاں دہشت گردی میں سیکڑوں پولیس اہلکار اپنی زندگی گنوا چکے ہیں۔

غلام اللہ نے کہا کہ اگر صوبے میں پولیس بھی محفوظ نہیں تو پھر لوگوں کی حفاظت کون کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین صوبے کے لوگوں کے لیے امن اور تحفظ کے ساتھ ساتھ پختونوں کی نسل کشی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

شانگلہ کول مائن ورکرز حقوق ایسوسی ایشن کے صدر عابد یار نے کہا کہ لوگوں کو دو طرفہ مشکلات کا سامنا ہے ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی تو دوسری طرف دہشت گردی کی لہر ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ صرف خیبرپختونخوا کے لوگوں کو ہی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے جبکہ دیگر علاقوں میں امن ہے۔

علاوہ ازیں پران تحصیل کے الوچ بازار اور کانا تحصیل کے اولندار بازار میں بھی سانحہ پشاور کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور حکومت سے علاقے میں امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اگر آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری پولیس کا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں اور شہریوں کو خطرے میں چھوڑا ہے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔

مظاہرین نے کہا کہ اگر علاقے میں دہشت گردی ختم کرکے امن قائم نہیں کیا جاتا وہ وہ بڑے پیمانے پر ’امن تحریک‘ کا آغاز کریں گے۔

تحریک انصاف کی احتجاجی ریلی

دریں اثنا صوبے کی سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے صوابی، مردان، چارسدہ، بنوں، لوئر دیر اور تیمر گرہ میں امن مارچ کے نام سے مظاہرے کیے گئے۔

قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر نے صوابی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرفہرست ہے اور اپنی زمین پر کسی اور کو جنگ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

تحریک انصاف کے رہنما کامران بنگش نے پشاور میں ہونے والے مظاہرے کی فوٹیج جاری کیں جہاں شرکا امن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہا کہ 30 جنوری کو پشاور کے ریڈ زون میں ایک مسجد میں جب 300 سے زائد پولیس اہلکار اور شہری نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک دہشت گرد نے مسجد میں داخل ہوکر خودکش دھماکا کیا جس کے نتیجے میں 101 افراد شہید ہوگئے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔

واضح رہے کہ 2018 کے بعد سے رواں برس جنوری کا مہینہ سب سے خونی رہا ہے جہاں ملک بھر میں 44 دہشت گردی کے حملے کے گئے جس میں 134 افراد جاں بحق ہوئے، 254 سے زائد زخمی ہوئے۔

گزشتہ برس نومبر میں جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے حملوں میں اضافہ کردیا ہے اور عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

گزشتہ ماہ 8 جنوری کو پشاور میں تھانہ انقلاب کی حدود میں رکن قومی اسمبلی ناصر خان موسی زئی کے گھر پر نامعلوم شرپسندوں نے دستی بم حملہ کیا تھا۔

ترجمان پشاور پولیس نے بتایا تھا کہ ملزمان نے گھر کے احاطے میں حجرے (گیسٹ ہاؤس) کو نشانہ بنایا جس سے دیوار کو جزوی نقصان پہنچا اور قریبی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔

اس سے ایک روز قبل 7 جنوری کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں عسکریت پسندوں نے پولیس موبائل پر دستی بم حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر 2022 کو سیز فائر کے خاتمے کے بعد بنوں میں دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس 8 دسمبر کو ضلع بنوں میں کنگر پل کے قریب چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا تھا۔

بعد ازاں 18 دسمبر کو بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے مرکز میں قید دہشت گردوں نے تفتیش کاروں کو یرغمال بنا کر اپنی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

سال 2022 کے دوران خیبرپختونخوا میں امن و امان کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ پولیس نے جنوبی اور شمالی وزیرستان، لکی مروت اور بنوں کے اضلاع کو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ مقامات قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق 2022 میں پولیس کے خلاف ٹارگٹڈ حملوں میں بھی اضافہ ہوا، دہشت گردوں سمیت جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں 118 پولیس اہلکار شہید اور 117 زخمی ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں