وفاقی کابینہ نے تعزیرات پاکستان اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کرتے ہوئے فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے پر 5 سال سزا کے لیے مجوزہ بل کا جائزہ لینے کے لیے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی

وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجے گئے قانون فوجداری (ترمیمی )بل 2023 کا بغور جائزہ لینے کے لیے کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ کابینہ کی کمیٹی بل کے مسودے کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق کابینہ کی کمیٹی میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر قانون اور انصاف اعظم نذیر تارڑ، وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق اور وفاقی کابینہ میں موجود تمام اتحادی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔

ڈان ڈاٹ کو موصول اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ بل پر بحث ہوئی جہاں اراکین کی اکثریت نے اس ترمیم کی مخالفت کی۔

وزیراعظم دفتر کے ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما شیری رحمٰن، نوید قمر اور حنا ربانی کھر بھی ان اراکین میں شامل تھے جنہوں نے مجوزہ بل کی شدید مخالفت کی۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے مجوزہ بل کی بھرپور مخالفت کی۔

وزیراعظم نے کابینہ کے تحفظات سننے کے بعد مجوزہ بل کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ کمیٹی میں اتحادی جماعتوں کے اراکین بھی شامل کرلیا جائے تاکہ تحفظات دور کیے جاسکیں۔

مجوزہ فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے عنواں سے بل میں تعزیرات پاکستان 1860 میں سیکشن 500 کے بعد 500 اے کی نئی سیکشن کی تجویز دی گئی ہے، جس کو ’ریاستی اداروں کو جان بوجھ کر بدنام کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنانے‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی عدلیہ، مسلح افواج یا ان کے کسی بھی رکن کو بدنام کرنے یا تضحیک کا نشانہ بنانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا معلومات کسی بھی ذرائع سے پھیلائے تو اس کو قید کی سزا کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس میں 5 سال تک توسیع یا جرمانے کے ساتھ سزا ہوسکتی ہے، جرمانہ 10 لاکھ روپے یا جرمانہ اور قید دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

تعزیرات پاکستان کے شیڈول 2 میں سیکشن 500 کے ساتھ 500 اے کا اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے تحت مجرم کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جائے گا اور الزام ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت تصور کیا جائے گا اور اس کو صرف سیشن کورٹ میں چیلنج کیا جاسکے گا۔

بل کے مطابق ملک میں ریاست کے مخصوص اداروں کو حال ہی میں بدنام کرنے، تضحیک کا نشانہ بنانے اور بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان اداروں میں عدلیہ اور مسلح افواج شامل ہے۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ ذاتی مفادات ک لیے سائبر مہم شروع کی گئی ہے جس کا مقصد مخصوص ریاستی اداروں اور ان کے عہدیداروں کے خلاف اشتعال دلانا اور نفرت پھیلانا ہے۔

کایبنہ میں پیش کیے گئے مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے ملک کے ریاستی اداروں کا استحکام، شہرت اور آزادی کو جان بوجھ کر داغ دار کیا جا رہا ہے۔

بل میں بتایا گیا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے عہدیداروں کو سامنے آنے اور اسکینڈلائز کرنے، تضحیک آمیز بیانات کا جواب دینے کا موقع نہیں ملتا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے بل میں تجویز دی گئی ہے کہ مجوزہ سیکشن کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 196 کے تحت کسی بھی شخص کا ادراک کرنے یا کسی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے لازمی طور پر منظوری لی جائے گی۔

ڈان ڈاٹ کام کو ڈیجیٹل رائٹس کی کارکن فریحہ عزیز نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف کی پچھلی حکومت کے دوران ہونے والے سلوک سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی متعارف کروائی اور پری وینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 میں ترامیم کی تجویز دی تھی تو یہ تنقید کر رہے تھے لیکن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے برسراقتدار آتے ہی اسی طرح کی چیزیں شروع کردی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آرز)، غیرقانونی چھاپے اور گرفتاریاں معمول بن گئی ہیں جب بات سوشل میڈیا پوسٹس کی ہو تو اس کو ’ریاست مخالف‘ اور ’فوج مخالف‘ قرار دیا جاتا ہے۔

فریحہ عزیز نے کہا کہ پیکا کے ساتھ ساتھ تعزیرات پاکستان یا یہاں تک کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی مختلف دفعات سمیت تمام قوانین ریاستی سطح پر استعمال کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے ابتدائی طور پر پیکا کے سیکشن 500 مین ترمیم کا بل پیش کیا تھا لیکن بعد ازاں پارٹی نے نے آرڈیننس متعارف کروایا تھا جس میں سیکشن 20 کو توسیع دی گئی تھی جو کسی شہری کی عزت کے حوالے سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے کابینہ کی سمری تیار کی تھی جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو پیکا کے سیکشن 505 کے تحت بااختیاربنانا تھا اور اب ہم ایک اور کوشش دیکھ رہے ہیں، جس میں ہتک عزت کے قانون کو توسیع دی جا رہی ہے حالانکہ ہمیں اس کو ختم کرکے اپنے قوانین سے بھی ہٹانے کی ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ترمیم کی کوشش

یاد رہے کہ اسی طرح کا ایک بل اپریل 2021 میں قومی اسمبلی سے منطور ہوا تھا، جس میں مسلح افواج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں پیش کیے گئے بل پر سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی اور وکلا میں تقسیم نظر ائی تھی۔

مذکورہ بل کی مخالفت صرف اپوزیشن نے ہی نہیں بلکہ اس وقت کے وفاقی وزرا فواد چوہدری اور ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے بھی کی گئی تھی۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز خیال ہے کہ تنقید کو قابل جرم بنایا جائے، لوگوں پر پابندیاں عائد کرکے احترام نہیں کروایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے نئے قوانین بنانے کے بجائے توہین عدالت اور اس طرح کے قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی امجد علی خان نے کریمنل لا ترمیمی بل 2020 کے عنوان سے پیش کیا تھا اور قومی اسمبلی کی کمیٹی سے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے آغا رفیع اللہ اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مریم اورنگزیب کی مخالفت کے باوجود منظور کیا گیا تھا تاہم دونوں ایوانوں سے مختلف وجوہات کے باعث منظور نہیں ہوپایا تھا۔

اسی طرح گزشتہ برس نومبر میں حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ایکٹ 1974 میں ترمیم کی تھی، جس کے تحت ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے پر کسی کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار ہوگا۔

قانون میں ترمیم کے حوالے سے رپورٹس سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ اگر بل اظہار رائے کے خلاف ہے تو پھر یہ منظور نہیں ہوگا اور میں اس کی حمایت نہیں کروں گا۔

اس کے بعد اس طرح کی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں