مبینہ بیٹی ظاہر نہ کرنےکا کیس: عمران خان کو آئندہ سماعت سے قبل جواب جمع کرانے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 09 فروری 2023
عمران خان پر مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے — فائل فوٹو: عمران خان انسٹاگرام
عمران خان پر مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے — فائل فوٹو: عمران خان انسٹاگرام

اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے کاغذات نامزدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر ان کی نااہلی کی درخواست پر آئندہ سماعت سے قبل اپنا جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ عمران خان پر مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے، شہری محمد ساجد نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نااہل کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ، درخواست گزار محمد ساجد کے وکیل سلمان بٹ بھی عدالت پہنچے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نے اضافی دستاویزات جمع کرانے کے لیے متفرق درخواست دی ہے، ہم نے عمران خان کے نئی نشستوں پر کامیابی کا نوٹی فکیشن جمع کرایا ہے، اس دوران عدالت عالیہ نے اضافی دستاویزات جمع کرانے سے متعلق متفرق درخواست منظور کرلی۔

عدالت عالیہ نے وکیل سلمان بٹ سے مکالمہ کیا کہ درخواست کی کاپی اور دستاویزات عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا کے ساتھ شئیر کریں۔

سلمان بٹ نے کہا کہ ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کامیابی سے متعلق دستاویزات جمع کرنے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ایک کرکے دلائل دیں کیونکہ ایک سائڈ کہہ رہے ہیں کہ رکن ہے اور دوسرا کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہے۔

سلمان بٹ نے مؤقف اپنایا کہ آخری سماعت پر عدالت نے الیکشن کمیشن سے کمنٹس مانگے تھے، سلمان اکرم راجا نے استدعا کی مجھے وقت دیا جائے تاکہ ریکارڈ پر اپنا جواب جمع کرسکوں، سلمان بٹ نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ آئندہ سماعت پر پھر کوئی اعتراض آئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا کیس میں جواب لانے میں سال سے زائد لگ گیا تھا، فیصل واڈا کیس میں جب جواب آیا تو وہ رکن قومی اسمبلی نہیں تھے۔

عمران خان کے وکیل نے استدلال کیا کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، سلمان بٹ نے کہا کہ اس کیس میں بھی تاخیری حربے استعمال کیے جانے کی کوشش ہو رہی ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ جلد بازی کس بات کی ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ عدالت نے اپنے ہی فیصلے میں درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرلیے ہیں، انہوں نے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے وقت دینے کی استدعا کی جب کہ درخواست گزار کے وکیل سلمان بٹ نے مزید مہلت دینے کی مخالفت کی۔

دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اگر درخواست گزار وکیل الیکشن کمیشن کے نوٹی فکیشن کو چیلنج کرتا ہے تو ہم جواب جمع کرائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ضروری ہیں، الیکشن کمیشن نے ایک فیصلے میں ڈی سیٹ کیا جب کہ دوسرے میں کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔

اس موقع پر عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مصدقہ دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو آئندہ سماعت سے قبل اپنا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست پر مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ یکم فروری کی سماعت میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے جج پر اعتراض کرتے ہوئے کیس خارج کرنے کی اپیل کی تھی جس پر 2 فروری کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور گزشتہ روز ہی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

یکم فروری کو جمع کرائے گئے اپنے جواب عمران خان نے کیس خارج کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان رکن اسمبلی نہیں رہے، اسلام آباد ہائی کورٹ آئینی دائرہ اختیار میں ٹیریان سے متعلق ڈیکلریشن کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

چیف جسٹس عامر فاروق پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وہ ماضی میں عمران خان کے خلاف اس نوعیت کا کیس سننے سے انکار کر چکے اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ ایک بار جج ایک کیس سننے سے انکار کردے تو اسی جج کا دوبارہ وہی کیس سننا غیر مناسب ہے۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکلا سے مکالمہ کیا کہ آپ کی جانب سے بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا، انہوں نے کہا کہ 2018 میں یہ کیس سننے سے معذرت ذاتی وجوہات پر نہیں کی تھی، اس وقت درخواست گزار نے مخصوص بینچ کے سامنے لگانے کی استدعا کی تھی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیس کی سماعت 9 فروری تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

درخواست گزار کا مؤقف

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں ٹیریان وائٹ کی کفالت کے انتظامات کیے لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں اور الیکشن لڑنے کے حلف نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔

درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہونے والے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی جانب سے 18 نومبر 2004 کے ڈیکلیریشن پر مشتمل اضافی دستاویز پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے یہ ڈیکلیریشن ٹیریان جیڈ خان وائٹ کی درخواست کی حمایت میں کیا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ کیرولین وائٹ (ٹیریان کی والدہ اینا لوئیسا سیتا وائٹ کی بہن) کو ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے۔

ڈیکلیریشن میں مزید کہا گیا ہے کہ جمائما خان نے ٹیریان جیڈ کے سرپرست کے طور پر خدمات انجام دینے سے انکار کردیا تھا اور سرپرستی کے لیے کیرولین وائٹ کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ٹیریان کے بہترین مفاد اور خواہش کے مطابق ہے۔

اینا لوئیسا (سیتا) وائٹ لارڈ گورڈن وائٹ کی بیٹی تھی جنہوں نے ایک بڑے صنعتی گروپ ہینسن پی ایل سی کی امریکی شاخ کی سربراہی کی۔

درخواست گزار ساجد محمود نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے سیتا وائٹ سے شادی نہیں کی کیونکہ اس کے ’نسل پرست‘ والد نے مدعا علیہ (عمران خان) کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے سیتا وائٹ سے شادی کی تو ان دونوں کو اس کی دولت میں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔

اس کے بعد ہی عمران خان کی ملاقات ایک اور امیر خاتون جمائما سے ہوئی اور بہت ہی کم عرصے میں ان سے شادی کرلی۔

درخواست میں ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں ٹیریان جیڈ کی تحویل جمائما کو دی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ اینا لوسیا وائٹ نے 27 فروری 2004 کی اپنی وصیت میں جمائما خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ خان وائٹ کا سرپرست نامزد کیا تھا، بعد ازاں اسی برس 13 مئی کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جمائما گولڈ اسمتھ 1995 سے 2004 تک عمران خان کی شریک حیات تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھپائے گئے حقائق کی تصدیق کیلیفورنیا کی ایک عدالت کی جانب کیے گئے فیصلے سے ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ مدعا علیہ (عمران خان) ٹیریان جیڈ کے والد ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ابتدائی طور پر اپنے اٹارنی کے توسط سے کارروائی میں شامل ہوئے لیکن جب انہیں خون ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا تو وہ کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعد میں جب سیتا وائٹ کی بہن کیرولین وائٹ نے عدالت سے کہا کہ اسے ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے تو انہوں نے عدالت میں ڈیکلیریشن جمع کرایا۔

تبصرے (0) بند ہیں