کیماڑی: زہریلی گیس سے مبینہ ہلاکتوں پر 10 مقدمات درج، عدالت سے قبر کشائی کی اجازت طلب

اپ ڈیٹ 09 فروری 2023
تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ پولیس ٹیم نے 5 فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس کو سیل بھی کردیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ پولیس ٹیم نے 5 فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس کو سیل بھی کردیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کو کیماڑی میں ہونے والی 18 اموات کا کیس درج کرکے تحقیقات کرنے کے حکم کے بعد پولیس نے 10 ایف آئی آرز درج کرلیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ پولیس نے مبینہ طور پر زہریلی گیس خارج کرنے والی 5 فیکٹریوں کو سیل کردیا اور عدالت سے متاثرین کی قبر کشائی کی اجازت دینے کی درخواست کردی۔

تفتیش کاروں نے ڈان کو بتایا کہ آئی جی نے ڈی آئی جی جنوبی عرفان علی بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی ہے جو ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق معاملے کی تحقیقات کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کے ورثا کی شکایات پر علی محمد گوٹھ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں کام کرنے والی فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس کے مالکان کے خلاف 10 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔

شکایت گزاروں خادم حسین، میر حسن، شکور احمد، محمد حسن، شبیر احمد، عبدالوہاب، ریاض احمد، وزیر احمد اور غلام قادر نے موچکو پولیس تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 322، 384 اور 34 کے تحت مقدمات درج کرائے۔

تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ پولیس ٹیم نے 5 فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس کو سیل بھی کردیا ہے جبکہ متعدد دیگر کو ان کے مالکان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے پہلے ہی تالے لگادیے تھے۔

بدھ کے روز ایس ایس پی انویسٹی گیشن کیماڑی سلیم شاہ نے صنعتی یونٹس کا دورہ کیا اور علاقے میں صنعتی یونٹس کے مقام اور گوداموں کی تفصیلات اکٹھی کیں، جبکہ متاثرین کے اہلِ خانہ سے ملاقات کر کے ان کی بھی معلومات حاصل کیں۔

قبر کشائی کی اجازت طلب

دریں اثنا ایک فیکٹری مالک کے خلاف مقدمے کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی سلیم شاہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ (مغربی) کے سامنے ایک درخواست دائر کی جس میں مقتولین کی قبر کشائی کی اجازت مانگی گئی تاکہ ان کی موت کی اصل وجہ کا پتا لگانے کے لیے پوسٹ مارٹم کرایا جاسکے۔

انہوں نے عرض کیا کہ قانونی ورثا نے متاثرہ افراد کی لاشیں، جن میں تقریباً 16 بچے بھی شامل تھے، جنہیں طبی اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر دفن کردیا تھا جو کہ تفتیش مکمل کرنے کے لیے ضروری تھا۔

تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ موت کی اصل وجہ معلوم کرنے کے لیے قانون کے مطابق متاثرین کی لاشوں کو نکالنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

مجسٹریٹ نے متاثرین کے قانونی ورثا یعنی شکایت کنندگان کو نوٹس جاری کیا کہ عدالت میں حاضر ہوں تاکہ وہ متاثرین کی لاشیں نکالنے کے لیے اپنی رضامندی ریکارڈ کرائیں۔

پولیس نے خیر محمد عرف شیر محمد کو گرفتار کیا تھا اور اس کے ساتھ دو بھائیوں اور شریک مالکان شاہد حسین اور سعید خان کے خلاف ان کے مبینہ غفلت برتنے پر مقدمہ درج کیا تھا جس کے نتیجے میں زہریلے دھوئیں کا اخراج ہوا تھا جس کے نتیجے میں علی احمد گوٹھ کے رہائشی 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں