نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے ’کنڈکٹ‘ پر سوالات اٹھادیے

اپ ڈیٹ 10 فروری 2023
عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی — فائل فوٹو: رائٹرز
عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی — فائل فوٹو: رائٹرز

قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے ’کنڈکٹ‘ پر سوالات اٹھادیے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر اہم سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سے اجتناب کیا، کیا ووٹنگ سے اجتناب کرنے والے کا عدالت میں حق دعویٰ بنتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کوئی رکن اسمبلی پارلیمان کو خالی چھوڑ سکتا ہے؟ کیا پارلیمان میں کرنے والا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا نہیں ہے؟

انہوں نے کہا کہ استعفیٰ منظور نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اسمبلی رکنیت برقرار ہے، رکن اسمبلی حلقے کی عوام کا نمائندہ اور ان کے اعتماد کا امین ہوتا ہے، کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آجانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں؟ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟ عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے تین ججوں کو کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کے خلاف چیخ و پکار کر رہی ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم کونسے بنیادی حقوق سے متصادم ہے نشاندہی نہیں کی گئی، عمران خان کے وکیل اسلامی دفعات اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر کرتے رہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان چاہتے تو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دے سکتے تھے، پی ٹی آئی کے تمام ارکان مشترکہ اجلاس میں آتے تو اکثریت میں ہوتے۔

اس دوران چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس نقطے پر عمران خان سے جواب لیں گے، انہوں نے کہا کیا صرف اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کے لیے آئین کا سہارا لیتا ہے، پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی، ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جواز بھی ہو، بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بے وقوفی لگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کارروئی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے، برصغیر میں تو بائیکاٹ کی لمبی تاریخ ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کتنے ارکان نے نیب ترامیم کی منظوری دی؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ بل منظوری کے وقت مشترکہ اجلاس میں 166 ارکان شریک تھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ مشترکہ اجلاس میں ارکان کی تعداد 446 ہوتی ہے یعنی آدھے سے کم لوگوں نے ووٹ دیا، عدالت صرف بنیادی حقوق اور آئینی حدود پار کرنے کے نکات کا جائزہ لے رہی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درخواست گزار نے نیب ترامیم عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر چیلنج کی، عمران خان کے کنڈکٹ پر سوال تب اٹھتا اگر نیب ترامیم سے ان کو کوئی ذاتی فائدہ ہوتا، بظاہر درخواست گزار کا نیب ترامیم سے کوئی ذاتی مفاد منسلک نہیں لگتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ضروری نہیں ذاتی مفاد کے لیے ترامیم چیلنج ہوں، درخواست گزار کو نیب ترامیم چیلنج کرنے سے سیاسی فائدہ بھی مل سکتا ہے، پی ٹی آئی نے استعفے نامنظور ہونے پر عدالت سے رجوع کیا، استعفے منظور ہونے پر بھی پی ٹی آئی عدالت میں آگئی، عمران خان نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ خالی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شاید عمران خان کو معلوم تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو عدالت آگئے، عمران خان سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کسی بھی مقدمے کی بنیاد حقائق پر ہوتی ہے قیاس آرائیوں پر نہیں، عدالت قانون سازی کو برقرار یا کالعدم قرار دینے کے بجائے بغیر کسی فیصلے کے واپس بھی کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت نیب قانون کالعدم قرار دے گی تو کل کیا کوئی بھی سپریم کورٹ میں قانون سازی چیلنج کر دے گا؟ ایک شخص نے نیب ترامیم چیلنج کیں، ممکن ہے اسی جماعت کے باقی اراکین ترامیم کے حق میں ہوں۔

اس ریمارکس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ گزشتہ سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

منظور کیے گئے نیب (دوسرا ترمیمی) بل 2022 کے مسودے کے مطابق نیب 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں