ترکیہ، شام زلزلہ: اموات کی تعداد 25 ہزار سے تجاوز کرگئی

11 فروری 2023
ترک حکام کے مطابق نقصانات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے—فوٹو: رائٹرز
ترک حکام کے مطابق نقصانات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے—فوٹو: رائٹرز
1939 میں 7.8 شدت کے زلزلے میں 33ہزار افراد کی موت کے بعد سے یہ زلزلہ سب سے زیادہ طاقتور اور مہلک تھا—فوٹو:رائٹرز
1939 میں 7.8 شدت کے زلزلے میں 33ہزار افراد کی موت کے بعد سے یہ زلزلہ سب سے زیادہ طاقتور اور مہلک تھا—فوٹو:رائٹرز

ترکیہ اور شام میں صدی کے تباہ کن زلزلے کو 5 روز گزر چکے ہیں جہاں امدادی کارکنوں بڑے پیمانے پر زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقوں میں ملبے تلے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے جب کہ دونوں ممالک میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد بڑھ 25 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امدادی کارکنوں نے دو ماہ کے بچے اور ایک بزرگ خاتون کو ملبے سے نکال لیا جبکہ 5 روز گزرنے کے بعد ترکی اور شام میں ہلاکتوں کی تعداد 25 ہزار 880 ہوگئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ ترکی میں جاں بحق افراد کی تعداد 22 ہزار 327 اور شام میں 3 ہزار 553 ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی میں 12 ہزار 141 عمارتیں تباہ ہوئی ہیں یا بری طرح متاثر ہوچکی ہیں۔

ترکیہ کی بوگازک یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفیٰ اردک نے بتایا کہ نقصانات میں اضافے کا خدشہ ہے لیکن اس طرح کا نقصان نہیں ہوگا جو اس وقت نظر آرہا ہے۔

اے ایف پی کی خبر کے مطابق متاثرہ علاقوں میں خون جما دینے والے سرد موسم نے امدادی کوششوں کو سخت متاثر کیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جنہیں فوری امداد کی اشد ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ زلزلے کے بعد دونوں ممالک میں کم از کم 8 لاکھ 70 ہزار افراد کو فوری طور پر خوراک کی ضرورت ہے جبکہ تباہ کن قدرتی آفت کے دوران صرف شام میں 53 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

پیر کے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس نے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور زندہ بچ جانے والوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنادیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے ترکیہ میں کم از کم 5 لاکھ 90 ہزار اور شام میں 2 لاکھ 84 ہزار نئے بے گھر افراد کو خوراک فراہم کرنے کے لیے 7 کروڑ 70 لاکھ ڈالر فراہمی کی اپیل کی ہے۔

یو این ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ان میں 5 لاکھ 45 ہزار ملک کے اندر بے گھر ہونے والے شہری اور 45 ہزار مہاجرین تھے۔

کالعدم کردستان ورکرز پارٹی جسے انقرہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے اس نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے کام کو آسان بنانے کے لیے لڑائی کو عارضی طور پر روکنے کا اعلان کیا۔

باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی شام میں تقریباً 40 لاکھ افراد انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں لیکن گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے امداد فراہم نہیں کی گئی۔

شامی حکومت نے کہا کہ اس نے اپنے کنٹرول علاقوں سے باہر زلزلہ زدہ علاقوں میں انسانی امداد کی ترسیل کی منظوری دے دی ہے۔

رواں ہفتے ترکیہ سے صرف 2 امدادی قافلے سرحد پار کر سکے جہاں حکام اپنے طور پر زلزلے سے متعلق امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی اور شامی-روسی فضائی بمباری کے باعث پہلے ہی ہسپتال تباہ تھے اور بجلی اور پانی کی قلت تھی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ترکی اور شام کے درمیان سرحد پار سے انسانی امداد کے نئے پوائنٹس کھولنے کی اجازت دے، سلامتی کونسل ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے کے اوائل میں شام کے حوالے سے بات چیت کے لیے اجلاس کرے گی۔

ترکیہ نے کہا کہ وہ شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں 2 نئے راستے کھولنے پر کام کر رہا ہے۔

ملک میں حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے میں 12ہزار 141 عمارتیں یا تو تباہ ہوئیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا۔

پولیس نے جمعے کے روز ایک ٹھیکیدار کو حراست میں لے لیا جو ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ اس کی تعمیر کردہ عمارت تباہ کن زلزلے میں منہدم ہوگئی تھی۔

1939 میں 7.8 شدت کے زلزلے میں 33ہزار افراد کی موت کے بعد سے یہ زلزلہ سب سے زیادہ طاقتور اور مہلک تھا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گزشتہ پہلی بار اعتراف کیا کہ ان کی حکومت متاثرین تک پہنچنے اور ان کی مدد کرنے میں اتنی جلدی کامیاب نہیں ہو سکی جتنی جلدی ہماری خواہش تھی۔

قبرص کے بچے

قبرص سے تعلق رکھنے والے 24 بچے جن کی عمریں 11 سے 14 سال کے درمیان تھیں، وہ والی بال ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے ترکیہ میں موجود تھے کہ زلزلے کے دوران ان کے ہوٹل کی عمارت زمین بوس ہوگئی۔

مرنے والے بچوں میں سے 10 کی لاشیں ان کے آبائی وطن شمالی قبرص بھیج دی گئیں۔

ترک میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اب تک گروپ میں شامل کم از کم 19 افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 15 بالغ افراد بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں