افغانستان نے کارروائی نہ کی تو دہشت گردی کو دیگر ممالک تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی، بلاول

اپ ڈیٹ 18 فروری 2023
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر افغانستان کی عبوری حکومت نے اپنی سر زمین سے سرگرم عسکریت پسند گروپوں کا مقابلہ کرنے کے عزم اور صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا تو دہشت گردی کو پاکستان سے باہر دوسرے مقامات پر پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ خطے میں افغانستان کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ ملک کی سیکیورٹی اور دہشت گردی کا خطرہ ہے جبکہ افغانستان سے باہر بھی ہر رنگ اور نسل کی دہشت گرد تنظیموں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری یا افغان حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے معاملے پر خاطر خواہ سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اور عبوری حکومت نے ان گروپس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہ دہشت گرد گروپس سے مقابلہ کرنے کے عزم اور صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اس خطے میں دہشت گردی کی کارروائیاں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کابل سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں لیکن ان کارروائیوں کو دیگر خطوں تک پہنچنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

وزیر خارجہ نے عالمی برادری پر اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں عبوری حکومت کو بین الاقوامی برادری کے اتفاق رائے سے اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے قائل کیا جائے۔

انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مزید کہا کہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت کی صلاحیت میں اضافے کے لیے راستے تلاش کریں تاکہ ایک مستقل فوج بنانے میں ان کی مدد کی جا سکے۔

بلاول بھٹو زرداری نے افغان حکومت کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہے، نہ انسداد دہشت گردی فورس ہے اور نہ ہی سرحد کی سیکیورٹی کے لیے مناسب فورس ہے، اس صورت حال میں اگر وہ کوئی کارروائی کرنا بھی چاہیں تو ان کے پاس اس دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے جو پہلے ان کے قریبی پڑوسی ممالک اور پھر بین الاقوامی برادری کے لیے ایک مسئلہ ہے۔

وزیر خارجہ نے بتایا کہ سقوط کابل اور یوکرین کی جاری جنگ کے بعد افغانستان پر بہت کم توجہ دی گئی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان لبریشن آرمی اور القاعدہ افغانستان جیسے کالعدم عسکریت پسند گروپ افغانستان سے کام کر رہے ہیں لیکن عالمی برادری خطرے پر قابو پانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکام کو دہشت گردوں سے نمٹنے اور اپنے سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قائل کرنے میں میرا بہت وقت لگتا ہے، ہمارے باہمی رابطے اور تعاون کے مقابلے میں افغانستان میں دہشت گرد گروپ آپس میں مسلسل رابطے میں ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان پر چڑھائی کر کے ان کے خلاف کارروائی کرنے جیسی ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتا، لہٰذا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ افغانستان میں قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائے۔

بلاول نے زور دے کر کہا کہ پاکستان افغانستان کی ہر طرح سے مدد کرتا رہے گا اور ملک کے بینکنگ چینلز کھولنے، فنڈز غیر منجمد کرنے اور افغانستان کے حقائق پر مبنی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کرے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں