پی ٹی آئی کی ’جیل بھرو تحریک‘ کا آغاز، سیکڑوں کارکنان گرفتاری کیلئے تیار

اپ ڈیٹ 22 فروری 2023
سابق حکمران جماعت نے فیصل آباد، قصور اور شیخوپورہ سمیت متعدد شہروں میں مختلف بہانوں سے ریلیاں نکالیں—تصویر: ٹوئٹر
سابق حکمران جماعت نے فیصل آباد، قصور اور شیخوپورہ سمیت متعدد شہروں میں مختلف بہانوں سے ریلیاں نکالیں—تصویر: ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان آج (بدھ) کو پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی سڑکوں پر نکل کر ’جیل بھرو تحریک‘ کا آغاز کریں گے، جس میں ’200 سے زائد حامی‘ گرفتار ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مہم کی تیاری میں پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ دن بھر مصروف رہا جبکہ پارٹی کارکنان اور رہنما پیغامات شیئر کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ’مرحلہ وار‘ گرفتاری مہم کا حصہ بننے کی ترغیب دیتے رہے۔

اس ضمن میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’جیلوں کو بھر دو اور خوف کے بتوں کو پاش پاش کر دو۔‘

بظاہر تحریک کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں سابق حکمران جماعت نے فیصل آباد، قصور اور شیخوپورہ سمیت متعدد شہروں میں مختلف بہانوں سے ریلیاں نکالیں۔

لاہور میں پی ٹی آئی کی مرکزی صوبائی صدر یاسمین راشد کی زیر صدارت آج سے شروع ہونے والی جیل بھرو تحریک کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس ہوا۔

تاہم پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت مہم کے پہلے ہی روز اپنی آزادی سے دستبردار نہیں ہو گی بلکہ تحریک کے پہلے مرحلے میں سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، سینیٹر ولید اقبال، سابق صوبائی وزیر مراد راس اور 200 سے زائد کارکنوں سمیت اوسط درجے کے رہنما گرفتاری دیں گے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق تحریک کے پہلے دن کا آغاز دوپہر 12:30 بجے پارٹی اراکین کے اعزاز میں اجلاس سے ہوگا۔

اجلاس کے بعد پارٹی کے حامی جیل روڈ کے راستے دی مال کی طرف مارچ کریں گے، جہاں دفعہ 144 نافذ ہے، اگر حکومت نے پی ٹی آئی کارکنوں کو حراست میں لینے سے انکار کیا تو ریلی پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر دھرنے میں تبدیل ہو جائے گی۔

لاہور کے بعد پشاور میں 23 فروری سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا جائے گا، جس کے بعد 24 فروری کو راولپنڈی، 25 فروری کو ملتان، 26 فروری کو گوجرانوالہ، 27 فروری کو سرگودھا، 28 فروری کو ساہیوال جبکہ فیصل آباد یکم مارچ کو اس تحریک میں شامل ہوگا۔

جیل بھرو تحریک کے فوکل پرسن سینیٹر اعجاز چوہدری تحریک کی کامیابی کے حوالے سے پراعتماد نظر آئے اور کہا کہ پارٹی نے مہم کے پہلے روز 200 رضاکاروں کو طلب کیا تھا لیکن 2 ہزار سے زائد افراد نے مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو پارٹی رہنما آئندہ ضمنی الیکشن پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے لڑیں گے وہ اس مہم کا حصہ نہیں بنیں گے۔

پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اور اس کے سینیئر رہنما جیل بھرو تحریک کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ محمود قریشی اور اسد عمر نے تحریک کے پہلے ہی دن خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے پر اصرار کیا’ تاہم فی الحال قیادت سمجھتی ہے کہ پارٹی کو حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے اس مہم کو پاکستان کی تاریخ کا ایک ’منفرد واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے کبھی ایسی تحریک شروع کرنے کی ’جرات‘ نہیں کی جہاں اس کے کارکنان اور رہنما رضاکارانہ طور پر گرفتاریوں کے لیے پیش ہوں۔

پارٹی کے مرکزی رہنما اسد عمر نے پی ٹی آئی کے ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کیے گئے ایک مختصر انٹرویو میں کہا کہ تحریک کا مقصد قوم کی آزادی حاصل کرنا ہے، پی ٹی آئی کے حامی اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے لیے اپنی ’انفرادی آزادی‘ ترک کر دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری ذاتی رائے میں معاملت کے اس نہج پر پہنچنے سے پہلے ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا، تاہم اسدعمر نے یہ نہیں بتایا کہ کیا وہ آج جیل جائیں گے۔

شرپسندوں کو گرفتار کیا جائے گا، وزیر داخلہ

دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی گرفتاری مہم کا مقصد ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی خراب صورتحال پیدا کرنا ہے، پی ٹی آئی ’جیل بھرو تحریک‘ کے ذریعے ڈرامہ رچا کر میڈیا کی توجہ حاصل کر رہی ہے۔

سرکاری خبررساں ادارےاے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شرپسندوں کو گرفتار کیا جائے گا اور ملک میں امن و امان کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔

اجلاس کے شرکا نے اتفاق کیا کہ ’خواتین اور غریب کارکنوں کی گرفتاری سے گریز کیا جائے گا‘۔

وزیر نے کہا کہ شرپسندوں کا ریکارڈ رکھا جائے گا اور پولیس کی جانب سے جاری کردہ کریکٹر سرٹیفکیٹ میں ان کی سرگرمیوں کا ذکر کیا جائے گا۔

ایک روز قبل پنجاب حکومت نے دی مال، گلبرگ مین بلیوارڈ کے ساتھ ساتھ پنجاب سول سیکریٹریٹ کے باہر اور اس سے ملحقہ سڑکوں پر دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ہر قسم کے اجتماع، دھرنوں اور جلوسوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں