خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی ’جیل بھرو تحریک‘، کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی

اپ ڈیٹ 24 فروری 2023
دن کے وقت جیل بھرو تحریک کا مقام گلبہار سے ہشت نگری منتقل کردیا گیا — تصویر: شہرام ترکئی ٹوئٹر
دن کے وقت جیل بھرو تحریک کا مقام گلبہار سے ہشت نگری منتقل کردیا گیا — تصویر: شہرام ترکئی ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی ’جیل بھرو تحریک‘ کے دوسرے روز خیبرپختونخوا میں پارٹی کے کارکنان اور رہنما ’حقیقی آزادی‘ کی خاطر اپنی ذاتی آزادی سے دستبردار ہونے کے لیے زیادہ تیار نظر نہیں آئے اور پورے دن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دن کے وقت جیل بھرو تحریک کا مقام گلبہار سے ہشت نگری منتقل کردیا گیا اور مہم کا آغاز دوپہر 2 بجے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

تاہم مقررہ وقت کے کافی دیر بعد مظاہرہ شروع ہوا اور شام 5 بجے کے قریب پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک کی قیادت میں ایک قافلہ ’گرفتاری دینے کے لیے‘ پیدل پشاور کی سینٹرل جیل پہنچا۔

اس وقت تک پولیس بھی پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرنے سے گریزاں نظر آئی اور جیل کے باہر تقاریر کرنے کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔

یہ فیصلہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے خیبرپختونخوا کے رہنماؤں کو اس ہدایت کے بعد کیا گیا کہ وہ گرفتاریوں کے لیے ایک اور کال دیں گے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ عمران خان کی کال پر ہم نے گرفتاری کے لیے گھنٹوں انتظار کیا اور اب جیل کے دروزے پر آگئے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ انتظامیہ کب دروازے کھولے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ گرفتاریوں سے نہیں ڈرتے اور دوبارہ واپس آئیں گے۔

خیبرپختونخوا کے سابق گورنر شاہ فرمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ حکومت ’کچھ سینئر رہنماؤں‘ کو گرفتار کرنا چاہتی ہے لیکن ان کے بقول اس تحریک کا مطلب ’’کچھ رہنماؤں کی نہیں بلکہ پارٹی کے تمام کارکنان کی گرفتاری‘ ہے۔

قیدیوں کی وین میں فوٹو سیشن

ابتدائی طور پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد، تقریباً 400، گلبہار تھانے کے باہر جمع ہونا شروع ہوئی جو کہ مظاہرے کا ابتدائی مقام تھا، تاہم بعد میں اسے ہشت نگری میں تبدیل کردیا گیا۔

چونکہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے اعلیٰ رہنما دوپہر دیر سے پہنچے، پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنما دن کے زیادہ تر حصے میں گلفت حسین شہید پولیس اسٹیشن کے قریب گرفتاریوں کی توقع میں انتظار کرتے رہے جو ہوئی ہی نہیں۔

البتہ پارٹی کے حامیوں اور رہنماؤں نے حراست میں لینے کے لیے کھڑی قیدیوں کی وین کے اندر فوٹو سیشن میں حصہ لیتے ہوئے اپنا وقت گزارا۔

جیو نیوز نے ایس پی سٹی عبدالسلام خالد کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ’قیدیوں کی وین کے ٹائر پنکچر کر دیے تھے جو انہیں حراست میں لینے کے لیے کھڑی کی گئی تھی‘۔

رپورٹ کے مطابق پولیس افسر نے بتایا کہ ’قیدیوں کی وین میں چند منٹ بیٹھنے کے بعد کارکنان اس سے باہر نکل گئے اور کسی نے بھی خود کو پولیس کے حوالے نہیں کیا‘، ایک ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ پولیس نے احتجاج کے سلسلے میں کسی کو حراست میں نہیں لیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں ایک درجن سے زائد حامیوں سے گھرے پی ٹی آئی کے رہنما فضل الہٰی کو قیدیوں کی وین کے دروازے پر کھڑے پوز دیتے اور چند ہی سیکنڈ کے بعد وہاں سے نکل کر جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

سوات سے ایک اور ویڈیو میں ایک پولیس پارٹی پی ٹی آئی رہنما کے گھر پہنچی اور ان سے اپنے آپ کو حوالے کرنے کے لیے باہر آنے کو کہا، تاہم پی ٹی آئی رہنما نے بعد میں میڈیا والوں کو بتایا کہ وہ ’گرفتاری دینے کے لیے‘ پشاور میں ہیں۔

اسی طرح ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پی ٹی آئی کا صرف ایک کارکن سامنے آیا، ضلعی پولیس پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کا انتظار کرتی رہی تاہم سابق وزیر علی امین گنڈاپور سمیت ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا اور ڈی آئی خان کے گاؤں ماندھراں سے آنے والے صرف ایک کارکن کو گرفتار کیا گیا۔

جیل کی جانب مارچ کرنے سے پہلے پرویز خٹک اور اسد قیصر سمیت پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں نے مظاہرین سے بات کی۔

محمد عاطف خان، شہرام خان ترکئی، سابق گورنر شاہ فرمان اور پرویز خٹک نے اپنی تقاریر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پرویز خٹک نے اپنے خطاب میں کہا کہ مظاہرین پیدل پشاور جیل جائیں گے اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کریں گے۔

پرویز خٹک نے ہجوم سے کہا کہ ’ہم سب پیدل ہی سینٹرل جیل جائیں گے اور انتخابات کے اعلان تک یہ سلسلہ جاری رہے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں