طورخم بارڈر کی بندش سے تاجروں، ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں اضافہ

24 فروری 2023
اسسٹنٹ کمشنر ارشاد مومند نے بتایا کہ  افغان حکام کی جانب سے کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ سرحد کیوں بند کی گئی تھی—فوٹو:اے ایف پی
اسسٹنٹ کمشنر ارشاد مومند نے بتایا کہ افغان حکام کی جانب سے کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ سرحد کیوں بند کی گئی تھی—فوٹو:اے ایف پی

پاک افغان طورخم بارڈر کی مسلسل پانچویں روز بھی بندش نے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور پیدل آمد و رفت کرنے والے شہریوں کی مالی اور جسمانی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان حکام نے اپنی طرف کی سرحد کو دوبارہ کھول دیا اور پاکستانی حکام نے اصرار کیا کہ وہ بھی دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ملاقات کے بعد اپنی طرف کی سرحد کو کھول دیں گے۔

اسسٹنٹ کمشنر ارشاد مومند نے ڈان کو بتایا کہ انہیں تاحال افغان حکام کی جانب سے کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ اتوار کی رات ان کی جانب سے کیوں سرحد کو بند کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ آج انہوں نے اسے دوبارہ کیوں کھول دیا۔

انہوں نے کہا کہ سرحدی پروٹوکول کے مطابق غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے دونوں ممالک کے حکام کے درمیان باضابطہ ملاقات ابھی ہونی ہے جس میں سرحد کے دونوں جانب پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہ پاکستان نے تاحال اپنی سرحد کیوں نہیں کھولی کہا کہ ہمیں ابھی اصل مسئلے کو مناسب فورم پر اٹھانا ہے اور پھر مستقبل کے لیے باہمی طور پر متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر بارڈر کو دوبارہ کھولنے کی خبریں زیر گردش رہیں، ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد علی الصبح طورخم بارڈر پر سیکڑوں افغان باشندے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل مایوس واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے۔

واپس جانے کے خواہشمند زیادہ تر افغان شہریوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب کہ انہیں خوراک کی کمی کا سامنا تھا، ان شہریوں نے ایسے گوداموں میں عارضی پناہ بھی لی جو کہ رہنے کے قابل نہیں تھے، ان میں سے کچھ نے برطانوی دور کی ریلوے سرنگوں میں پناہ لی جس میں بیٹھنے لیٹنے کی مناسب جگہ نہیں تھی اور ان کے پاس گرم کپڑے بھی نہیں تھے۔

نوجوانوں کی ایک مقامی رضاکار تنظیم نے پھنسے ہوئے افغان شہریوں کے لیے خوراک، کپڑوں اور دوائیوں کا انتظام کیا جب کہ خواتین اور بچے اس طرح کے مشکل اور سخت حالات میں زیادہ پریشانی کا شکار تھیں۔

خیال رہے کہ 19 فروری کو افغان طالبان کے حکام نے اسلام آباد پر اپنے وعدوں سے مکرنے کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ایک اہم تجارتی اور سرحدی گزرگاہ کو بند کر دیا تھا۔

طورخم میں طالبان کمشنر مولوی محمد صدیق نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی، اس لیے قیادت کی ہدایت پر گیٹ وے کو بند کر دیا گیا ہے۔

افغان طالبان کے عہدیدار نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسلام آباد نے مبینہ طور پر اپنے کس عہد کی خلاف ورزی کی ہے، کچھ غیر مصدقہ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ افغان طالبان پاکستان میں علاج معالجے کے خواہشمند افغان مریضوں کی آمد و رفت پر غیر اعلانیہ پابندی سے ناراض ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی قیادت میں ایک وفد نے کابل کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ’دونوں فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا۔‘

یہ دورہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے کراچی میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر دھاوا بولنے کے چند روز بعد ہوا جس میں تین سیکیورٹی اہلکاروں سمیت چار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں