پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن از خود نوٹس، سپریم کورٹ میں سماعت مکمل، فیصلہ کل 11 بجے سنایا جائے گا

اپ ڈیٹ 28 فروری 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ از خود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ از خود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس میں وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل (بدھ) صبح 11 بجے سنایا جائےگا۔

گزشتہ روز سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا، سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا، جب جج دستحط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل شروع کیے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر اور گورنر معاملے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا ؟ عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری قانون نے جاری کیا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں، بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے جبکہ عابد زبیری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں، کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔

عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔

دوران سماعت صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کے وکیل علی ظفر ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری، جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ، صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا، اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

آرٹیکل 48 کہتا ہے صدر کا ہر عمل، اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، جسٹس جمال

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر ہر اقدام حکومت کی ایڈوائس پر کرتے ہیں، گورنر بھی صوبائی حکومت کی ایڈوائس پر عمل کرتے ہیں، عابد زبیری نے استدلال کیا کہ گورنر کو اختیار ہے اسمبلی تحلیل کرنے کا، آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن کون کرے گا، عابد زبیری نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ ایڈوائس کرتا ہے تو گورنر کو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے، اگر گورنر دستخط نہیں کرتا ہے تو 48 گھنٹوں میں ازخود تحلیل ہو جاتی ہے، اس کیس میں گورنر کے بجائے اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری قانون نے جاری کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سیف اللہ کیس میں 12 ججوں نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ حکومت یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟

حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، جسٹس منصور

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا، عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں، عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی، نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہے۔

90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، چیف جسٹس

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی، عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں، عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی ہے، 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔

عابد زبیری نے استدلال کیاکہ وقت کے دباؤ میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دے گا، میرا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اگر الیکشن کمیشن انتحابات کرانے سے معذوری ظاہر کرے تو کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے، عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں، گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا، کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ صدر کے اختیارات آئین میں واضح ہیں، صدر ہر کام کے لیے ایڈوائس کا پابند ہے، عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت ہر کام کے لیے ایڈوائس کے پابند نہیں، صدر ہر وہ اختیار استعمال کر سکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہے، انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کرسکتے ہیں, جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا، جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا۔

کیا الیکشن کمیشن گورنر کی دی گئی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے، جسٹس منصور کا استفسار

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کےلیے خط لکھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر مان لیا کہ قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے، صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ انتخابات 90 روز سے آگے کون لے کر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال ہونے والے اختیارات میں فرق ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیں، الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لے کر جانا چاہیے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل جاری تھے کہ اس دوران عدالت عظمیٰ نے سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کر دیا۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کی تو اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذمہ داری انتخابات کرانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کا مؤقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے، گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں جبکہ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سمجھ نہیں آتا ہائی کورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا ہے؟ بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے، ایسے کون سے نکات تھے جس کی تیاری کےلیے وکلا کو 14 دن درکار تھے، ہائی کورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔

انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر نے کرنا ہے، جسٹس منیب اختر

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے، اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر مؤثر ہے، اگر سیکشن 57 ون غیر مؤثر ہے تو قانون سے نکال دیں۔

اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکش کمیشن کا کردار حتمی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہو سکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینے کی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے واضح کہا ہے کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے کرنا الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر کو کرنا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 14،14 روز کے لیے ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ دی ہے، الیکشن پروگرام پر عمل کریں تو انتخابات 90 روز کی مدت میں ممکن نہیں، پنجاب میں 90 روز کی مدت 14 اپریل کو مکمل ہو رہی ہے لیکن صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں ہیں۔

انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے، اٹارنی جنرل

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے، الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے، انتخابی مہم کےلیے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کےلیے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن بااختیار ہے،کیا شیڈول میں تبدیلی کرسکتا ہے، آئین پر عمل درآمد ہر صورت میں ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی انتخابات کی تیاری کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کےلیے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا؟ 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔

مت سمجھیں کہ غیر آئینی کام کی توسیع ہوگی، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ کا اختیار آئین سے بالا تر نہیں ہوسکتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کا اختیار الیکشن کمیشن سے متضاد نہیں ہوسکتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل قانون کا دفاع کرنے کے بجائے اس کے خلاف بول رہے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 57 ون ختم کردیں تو الیکشن ہو ہی نہیں سکیں گے۔

اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے 14 اپریل تک الیکشن ممکن نہیں، ٹھوس وجوہات کے ساتھ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجاز ہے، کسی نے ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی سب کچھ ہوا میں ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا؟ جھگڑا ہی سارا 90 روز کے اندر الیکشنز کرانے کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ٹھوس وجوہات پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تاریخ کا اعلان کیے بغیر آرٹیکل-254 کا سہارا کیسے لیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ 90 دن سے تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہو وہی کریں گے۔

کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے، آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کی پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کےلیے سمری نہیں بھجوا سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر وزیر اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر کو انتظار کرنا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے۔

اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ آج کی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ویسے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 روز کی مدت مکمل ہو رہی ہے الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے نہیں نکل سکتا۔

اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے استدلال کیا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت کام کرنا ہے، الیکشن کمیشن 3 طرز کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن سینیٹ، صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے، ہم صرف پنجاب اور کے پی کے الیکشنز کی بات کر رہے ہیں، ہمارا پہلے دن سے ہی مؤقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے، حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی وہ عمل درآمد ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے یا نہ وہ تاریخ دے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب کے گورنر کہتے ہیں کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔

اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا وہ آج تک اس مؤقف پر قائم ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے گورنر پنجاب کو 9 سے 13 اپریل تک الیکشن تاریخ دینے کےلیے خط لکھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟ گورنر نے مشاورت کےلیے آپ کو بلایا تھا یا نہیں؟

ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند، انتخابات پر متحرک ہونا کمیشن کی ذمہ داری ہے، عدالت

وکیل الیکشن کمیشن نے استدلال کیا کہ گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضا نہیں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گورنر کی ذمہ داری ہے اسمبلی تحلیل کرے یا نہ کرے.

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کہتے ہیں اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیوں دوں، وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ ہماری نظر میں گورنر کا مؤقف درست نہیں، شیڈول کو مدنظر رکھ کر ہی گورنر کو تاریخیں تجویز کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر نے مشاورت کے لیے الیکشن کمیشن کو بلوایا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر نے مشاورت کے لیے انہیں بلایا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر نے مشاورت کے بجائے انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے مشاورت کرکے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نےگورنر سے ملاقات کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا گورنر خیبرپختونخوا سے تاریخ کےلیے بات ہوئی ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کو یاددہانی کا خط بھی لکھا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے نہ مشاورت کےلیے نہ تاریخ دی، گورنر نے دیگر اداروں کے ساتھ رجوع کرنے کا کہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گورنر خیبرپختونخوا کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنر سے رجوع کرتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر کی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ انٹرا کورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا گورنر سے مشاورت کےلیے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے، کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جاسکتا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کو بتایا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے خود مشاورت کرنی ہے جو کرنا ہے کریں، اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل ختم کر دیے، جس کے بعد گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل کو روسٹرم پر بلا لیا گیا۔

حکمران اتحادی جماعتوں نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست واپس لے لی

چیف جسٹس نے گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل سے استفسار کیا کہ 31 جنوری کے خط کا کیا مطلب ہے، گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ اسمبلی وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی، ہم نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ نگران حکومت گورنر نے بنائی ہے، تو الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی؟ چیف جسسٹس نے سوال کیا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کمیشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی۔

ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف اپنایا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت مالی خسارے کا شکار ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کرسکتی۔

اس موقعے پر عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو روسٹرم پر بلا لیا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ الیکشن ہوں گے تو حصہ بنیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اولین ترجیح آئین کے مطابق چلنا ہے، آئین کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا، الیکشن کمیشن چٹھیوں کے پیچھے خاموش ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ تو دیں، ہوسکتا ہے حالات ٹھیک ہو جائیں، فنڈز بھی آجائیں، ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دونوں صوبوں کے لیے 60 ارب روپے مانگے تھے، سوال یہ ہے کہ گورنر نے صوبدیدی اختیار میں مداخلت ہو سکتی ہے یا نہیں۔

اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) نے فل کورٹ کی درخواست واپس لیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے 5 رکنی لارجر بینچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے، آرٹیکل 184/3 کے تحت عدالت سے کون رجوع کرسکتا ہے واضح نہیں ہے، آئین کے مطابق گورنر کے پاس تاریح دینے کے لیے 90 دن کا وقت ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پنجاب اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، گورنر خیبرپختونخوا کے پاس 17 اپریل تک تاریخ دینے کا وقت ہے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس حساب سے 90 دن میں انتحابات کیسے ہوں گے؟ آرٹیکل 224 پر عمل کیسے ہو گا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس نکتے پر بعد میں آؤں گا، اسمبلی ازخود تحلیل ہو تو آئین خاموش ہے تاریخ کون دے گا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پنجاب میں اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی گورنر نے نہیں کی، الیکشن ایکٹ کے اختیار کے تابع ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون کے اس حصے کا بتائیں جہاں لکھا ہے فنڈز کی کمی کی صورت میں کیا ہوگا۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ معاشی صورت حال اور فنڈنگ پر قانون خاموش ہے۔

پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورت حال ہےکہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے، آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے، اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کردےگا، معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔

اس دوران عدالت نے سماعت میں 4 بجے تک کا وقفہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی مشاورت سے ایک تاریخ مقرر کریں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہےگی، مقدمہ بازی عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے مہنگی ہوگی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے پنچایتی دماغ میں ایک خیال آیا ہے کہ مل کر تاریخ دی جائے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قیادت سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جہموریت کی ہی بہتری ہے کچھ کمیشن آگے جائے، کچھ آپ پیچھے آئیں۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ مل کر فیصلہ کیا جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ارٹیکل 254 سب ٹھیک کر دے گا تاریخ تو آجائے، قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر سوچیں، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں تو حل نکل آئے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا کام رکا ہوا ہے، اس لیے کل تک انتطار نہیں کرسکتے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپس میں تاریخ طے کرنی ہے یا نہیں، فیصلہ کر کے عدالت کو بتائیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔

دوران سماعت وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ معلوم نہیں زردای صاحب کہاں ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے فون پر ہی بات کرنی ہے، ابھی کریں، پی ٹی آئی بھی اپنی قیادت سے بات کرے تاریخ کیا ہوسکتی ہے، عدالت صرف تاریخ دینے والے کا ہی بتا سکتی ہے۔

مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے، وکلا

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان کی قیادت سےمشاورت ہوئی اور قیادت کا کہنا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد نے تاریخ پر مشاورت کی، حکومتی اتحادی جماعتوں میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے اور مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی مشاورت ہوگی لہٰذا عدالتی کارروائی آگے بڑھائی جائے، مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی، بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے، صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔

الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو صدر کو ایڈوائس کون کرے گا، اسمبلی مدت پوری کرے تو دو ماہ میں انتخابات لازمی ہیں، ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بجھوا سکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سمری واپس بجھوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے، صدر کا اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے کسی سمری کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اور کیس تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کے لیے محنت کر رہی ہے، ججوں کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے مقدمات نمٹائے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا پڑتا ہے۔

بینچ کی تشکیل کا طریقہ کار قواعد میں موجود ہے، فاروق ایچ نائیک

پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد میں بینچ کی تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے، سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے یا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہو تو بتانا ضروری ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے اس دوران کہا کہ میں سینیٹر ہوں ابھی سینیٹ اجلاس نہیں ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ3 ہفتوں سے ہائی کورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ صرف مخصوص حالات میں عدالت ازخود نوٹس لیتی ہے، گزشتہ سال 2 اور اس سال صرف ایک ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں انتخابات لازم ہیں، عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے، مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دےگا اس کا تعین کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف قانون کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے اور نہ دے رہی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں۔

اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں، وکیل مسلم لیگ(ن)

مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) نہیں چاہتی کہ آئین کی خلاف ورزی ہو، قومی اسمبلی کا الیکشن ہو گا تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں منتحب حکومتیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے یکساں میدان ملنا مشکل ہے، پھر قومی اسمبلی کے انتحابات پر سوالیہ نشان اٹھے گا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ مسئلہ اس وقت عدالت کے سامنے نہیں ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ عدالت مردم شماری کو بھی مدنظر رکھے، 30 اپریل تک مردم شماری مکمل ہو جائے گی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر مردم شماری انتحابات سے ایک ہفتہ پہلے ہو تو کیا الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔

جسٹس منیب اختر کے سوال پر منصور اعوان نے کہا کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں، موجودہ کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، وفاق میں سیاسی حکومت ہے وہ کیسے صوبے میں اثر انداز نہیں ہو گی۔

منصور اعوان کا کہنا تھا کہ وفاق کے پاس توانائی کے شعبے کے علاوہ کچھ نہیں بچا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مردم شماری بھی وفاق کے ہی زیر انتظام ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے مردم شماری 30 اپریل کو شائع ہو جائے گی، 2016 کی مردم شماری بھی 2022 میں شائع ہوئی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ انتحابات 90 دن میں ہوں گے، وکیل منصور اعوان نے کہا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی اور عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے جو سپریم کورٹ میں چینلج نہیں ہے، اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں اور اگر عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجودہ حالات میں مقدمات دو مختلف ہائی کورٹس میں ہیں، ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے، جس پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کاقی ضائع ہو چکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 90 دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ امکان ہے ہائی کورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئیں گے اور اس کے ساتھ منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے، وکیل جمعیت علمائے اسلام پاکستان

حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے، گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری ہو چکی ہے، ایسا ممکن نہیں دو صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہوں۔

کامران مرتضی نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسری میں نہ دے، آرٹیکل 105-3 کو غیر مؤثر نہیں کیا جاسکتا، الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کے مطابق نہیں ہے، الیکشن ایکٹ بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ غلطی کو درست آپ کو کرنا ہے یا عدالت کو، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اس کا کوئی مقصد ہو گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اسمبلی کو قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا، جس پر جمعیت علمائے اسلام کے وکیل نے کہا کہ وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ گورنر آپ کی پارٹی کے ہیں، انہیں کہیں تاریخ کا اعلان کر دیں۔

تاریخ دینے کے لیے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں، وکیل سلمان اکرم راجا

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے صدر مملکت کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے جہاں انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر کو اختیار آئین کے مطابق دیا گیا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کا بھی اختیار ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیار پر آپ کا مؤقف آ گیا، کیا آپ اسپیکرز کی درخواستوں کو قابل سماعت سمجھتے ہیں۔

صدرمملکت کے وکیل نے کہا کہ درخواستیں 90 روز میں انتخابات کے لیے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیسے تاریخ دے دی، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر ہائی کورٹ میں فریق نہیں تھے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سیکشن 57 کا حوالہ نہیں تھا، صدر کو قانونی مشورہ دیا گیا کہ اپنا آئینی اختیار استعمال کریں، گورنر کے پی کے تاریخ دینے کا اختیار استعمال نہیں کر رہے تھے۔

صدر کو خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا، سلمان اکرم راجا

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر تسلیم کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کے لیے انہیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی، صدر کو خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا، صدر مملکت اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کا مؤقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے، پنجاب میں صدر کو اختیار تھا لیکن خیبرپختونخوا میں نہیں تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر کو رائے آپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتاٸیں۔

صدرمملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر مملکت نے فیصلہ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی اور انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب تک صدر مملکت نے خیبرپختونخوا کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے بلوایا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کر دیا اور صدر مملکت نے آئین اور قانون کے مطابق تاریح دی کیونکہ 90 روز میں ہر صورت انتحابات ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت ازخود نوٹس لینے اور درخواستیں سننے کے لیے بااختیار ہے، صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی دھمکیاں مل رہی ہیں، کابینہ نے صدر کو کہا ہے کہ آپ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جہاں آرٹیکل 6 لگتا ہے وہاں لگاتے نہیں ہیں۔

صدرمملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے لیا گیا از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا فیصلہ کل (بدھ) صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

9 ججوں پر مشتمل بنچ کو گزشتہ روز صبح ساڑھے 11 بجے سماعت کا آغاز کرنا تھا لیکن بینچ کی تشکیل نو کے بعد کارروائی بالآخر دوپہر ڈیڑھ بجے دوبارہ شروع ہوئی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

چیف جسٹس نے گزشتہ روز عندیہ دیا تھا کہ وہ آج اس کیس پر کارروائی مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ 4 معزز اراکین نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس

22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔

نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔


بینچ کے سامنے جائزے کے لیے سوالات:

  • مختلف حالات میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا آئینی اختیار کس کے پاس ہے؟
  • یہ آئینی ذمہ داری کب اور کیسے ادا ہو گی؟
  • عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟

ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کا تناظر یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں تھیں۔

چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹس میں لارجر بینچ کے لیے تین سوالات رکھے ہیں جن پر غور کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم آئینی معاملے پر وضاحت نہیں ہے اس لیے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے منسوب بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو درکار تعاون خاص طور پر ضروری فنڈ، عملہ اور سیکیورٹی کی فراہمی نہیں کی جا رہی ہے اور اسی لیے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد سے معذور ہے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ وجوہات کی روشنی میں کہا کہ میری نظر میں یہ مسائل عدالت کی جانب سے فوری توجہ اور حل کی ضرورت ہے، آئین کی کئی شقوں اور الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

بعدازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔

دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا، گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں