’توشہ خانہ کیس عمران خان کی ترجیح میں شامل نہیں‘، ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کا تفصیلی فیصلہ جاری

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2023
عدالت کی جانب سے 7 مارچ کو عمران خان کو عدالتی حاضری یقینی بنانے کی ہدات کی گئی— فائل فوٹو:  فوٹو بشکریہ فیس بُک/ عمران خان
عدالت کی جانب سے 7 مارچ کو عمران خان کو عدالتی حاضری یقینی بنانے کی ہدات کی گئی— فائل فوٹو: فوٹو بشکریہ فیس بُک/ عمران خان

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے وارنٹ گرفتاری کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہےکہ عمران خان توشہ خانہ کیس میں متعدد بار عدالتی پیشی پر غیرحاضر رہے، وہ آخری سماعت کے عدالتی اوقات کے اندر پیش نہیں ہوئے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ عمران خان کی درخواست کے مطابق وہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کےباعث کچہری پیش نہیں ہوسکے، صاف ظاہر ہورہا ہے کہ عمران خان عدالتی پیشیوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق رکھ رہے ہیں اور توشہ خانہ کیس ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان ضلع کچہری سے چند منٹوں کی دوری پر تھے، ان کی درخواست قابل قبول نہیں اس لیے مسترد کی جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں اور ان کو گرفتار کرکے 7 مارچ کو عدالت پیش کیاجائے۔

عدالت کی جانب سے 7 مارچ کو عمران خان کو عدالتی حاضری یقینی بنانے کی ہدات کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ہم نے ساڑھے تین بجے تک عمران خان کا انتظار کیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے اس لیے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

عدالت نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ 7 مارچ تک عمران خان کو گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں