پاکستانی کارکن عائشہ صدیقہ ٹائم کی ’وومن آف دی ایئر‘ میں شامل

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2023
عائشہ صدیقہ نے ایک گھریلو زندگی میں پرورش پائی جس کے بعد کچھ چیزیں ان کے شعور میں گہرائی سے اتر گئیں—فوٹو:
عائشہ صدیقہ نے ایک گھریلو زندگی میں پرورش پائی جس کے بعد کچھ چیزیں ان کے شعور میں گہرائی سے اتر گئیں—فوٹو:

پاکستان سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عائشہ صدیقہ نے عالمی جریدے ٹائم کی ’وومن آف دی ایئر 2023‘ کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

ٹائم کی سالانہ فہرست گزشتہ روز (2 مارچ) کو جاری ہوئی تھی جو متوازن دنیا کے لیے اپنی آواز بلند کرنے والے لیڈروں اور حقوق کے کارکنان کا جائزہ لیتے ہوئے اثر و رسوخ کی سب سے بہترین شکل نمایاں کرتی ہے۔

ٹائم میگزین میں ’وومن آف دی ایئر‘ کے لیے دنیا بھر کے مختلف ممالک سے 12 خواتین کو شامل کیا گیا ہے جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں بشمول کھیل، سیاست، فن اور ایکٹوزم سے ہے۔

رواں برس ٹائم میگزین نے ’وومن آف دی ایئر 2023‘ کی فہرست میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی موسمیاتی تبدیلی اور حقوق کی کارکن عائشہ صدیقہ کے علاوہ آسٹریلوی اداکارہ کیٹ بلانشیٹ، امریکی اداکارہ انجیلا باسیٹ، صومالیہ کی پروفیشنل باکسر رملا علی، امریکی گلوکارہ، نغمہ نگار فوبی بریجرز، برازیل کی نسلی مساوات کی وزیر اینیل فرانکو، یوکرینی خواتین اور ایل جی بی ٹی کی حقوق کی کارکن اولینا شیوچینکو، میکسیکو کی انسانی حقوق کی کارکن ویرونیکا کروز سانچیز، ایرانی نژاد امریکی صحافی، مصنفہ اور حقوق کارکن مسیح علی نیجاد، امریکی فٹ بال کھلاڑی میگن ریپینو، جاپانی سی ای او ماکیکو اونو اور امریکی مصنف کوئنٹا برنسن کو شامل کیا ہے۔

24 سالہ عائشہ صدیقہ انسانی حقوق اور موسمیاتی تحفظ کی سرگرم کارکن ہیں جو کہ خیالات کے اظہار کے طور پر شاعری کی مداح ہیں اور ان کے نزدیک شاعری امید کی نمائندگی کرتی ہے۔

نومبر میں مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس میں عائشہ صدیقہ نے یہ بتانے کے لیے کہ عالمی سربراہان نے اپنی قوموں کو کیسے ناکام کیا ہے ایک نظم پیش کی جس کا عنوان تھا ’آپ کی پائیداری کے بارے میں بہت کچھ، میرے لوگ مر رہے ہیں‘۔

عائشہ صدیقہ نے ماں کے زیر سایہ پرورش پائی جس کے بعد کچھ چیزیں ان کے شعور میں سرائیت کر گئیں جنہوں نے انہیں کمزوروں کی مدد کرنے اور آلودگی پھیلانے والوں کو جوابدہ ٹھہرانے کا حوصلہ اور ہمت دی۔

ٹائم سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری پرورش اس خیال کے ساتھ ہوئی ہے کہ دھرتی ایک جان دار ہے جو آپ کو زندگی کی نعمت سے نوازتی ہے اور بدلے میں آپ کی بھی ذمہ داری ہے اور میرے خیال میں ہم مجموعی طور پر اس دہانے پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہم دھرتی ماں کے آہ و پکار کو نظرانداز کر رہے ہیں‘۔

ٹائم کے مطابق 2020 میں عائشہ صدیقہ نے ’پالیوٹرز آؤٹ‘ نامی عالمی یوتھ ایکٹوسٹ اتحاد کی مشترکہ طور پر بنیاد رکھی جس کے تحت انہوں نے ایک ایکٹیوزم ٹریننگ کورس کے لیے فوسل فری یونیورسٹی کے آغاز میں مدد کی۔

رپورٹ کے مطابق اب وہ فوسل فیول انڈسٹری کے مقابلے کے لیے سرگرم کارکنوں کے وسائل کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے ’یوتھ کلائمیٹ جسٹس فنڈ‘ قائم کرنے میں مدد کے لیے کام کر رہی ہیں۔

یوتھ کلائمیٹ جسٹس فنڈ کے ساتھ ان کے کام کا مقصد دنیا بھر کے حقوق کارکنان میں نچلی سطح تک رقم کی بہتر تقسیم کو یقینی بنانا ہے اور نیویارک یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیومن رائٹس اینڈ گلوبل جسٹس میں کلائمیٹ لٹیگیشن ایکسلریٹر پروجیکٹ کے ریسرچ فیلو کے طور پر وہ سپورٹ کا ایک ایسا نظام بنانے میں مدد کر رہی ہے جس سے لیڈروں اور مقامی کارکنوں کے درمیان خلیج ختم ہوگی۔

عائشہ صدیقہ کی توجہ ماحولیاتی قانون میں انسانوں اور فطرت کے حقوق کو شامل کرنے پر بھی مرکوز ہے۔

انہوں نے ٹائم میگزین سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ کام یقیناً نسل در نسل کا ہے، آج میں جوان ہوں اور کل تک جوان نہیں رہوں گی اور میں اس معلومات کو پھیلانے کے لیے (عمر میں) خود سے چھوٹے لوگوں کے ساتھ کام کرنا بالکل پسند ہے تاکہ یہ سلسلہ کبھی نہ ٹوٹے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں