عمران خان عدلیہ بچاؤ تحریک چلانے سے پہلے اپنے ماضی پر نظر ڈالیں، اعظم نذیر تارڑ

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2023
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شخصیات کے حوالے سے فرق دیکھا گیا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شخصیات کے حوالے سے فرق دیکھا گیا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان عدلیہ بچاؤ تحریک چلانے سے پہلے اپنے ماضی پر نظر ڈالیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ہے، وہ معاشرے ترقی نہیں کرتے جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کر رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین کے لیے اچھا اور سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، حکومت پاکستان کا عزم ہے کہ خواتین کے تحفظ اور عملی زندگی میں ان کے کردار سے متعلق پالیسیاں بنانی ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عمران خان کو اب عدلیہ بچاؤ تحریک کا خیال آیا ہے، انسان کو اپنا ماضی دیکھنا چاہیے، پی ٹی آئی دور حکومت میں عدلیہ دباؤ کا شکار رہی، عدالتی فیصلوں میں اس دباؤ کا اظہار نظر بھی آیا۔

انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ اور توہین عدالت سمیت تمام کیسز میں عمران خان کا رویہ قابل ستائش نہیں رہا، اس لیے کسی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی رہنما کو اپنے ماضی پر بھی نظر دوڑانی چاہیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شخصیات کے حوالے سے فرق دیکھا گیا ہے، کچھ کیسز میں عدلیہ کے 2 پلڑوں کا جھکاؤ کسی ایک جانب جھکتے دیکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اپنے دامن میں جھانکنے کی ضرورت ہے، عدالتیں ان کو نوٹسز جاری کرتی ہیں اور یہ اپنی مرضی سے پیش ہوتے ہیں، اس طرح آپ عدالتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں، آپ ان حرکتوں سے عدالت کے تقدس اور تکریم کو پامال کرتے ہیں۔

الیکشن کی تاریخ سے متعلق سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 254 میں یہ گنجائش ہے کہ 90 روز کی قید کسی الیکشن کو غیر آئینی یا غیرقانونی قرار نہیں دیتی، آئین پاکستان میں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی چیز کو کسی مقررہ مدت میں ہونا ہے اور وہ اس مدت میں نہیں ہوتی تو اسے صرف اس لیے غیرآئینی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ 90 روز یا 60 روز میں نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری مکمل ہونے سے قبل 2 صوبوں میں انتخابات کا انعقاد الجھاؤ پیدا کرے گا، وفاق میں سیاسی حکومت کے ہوتے ہوئے اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے نتائج لاڈلا خان کے حق میں نہیں آتے تو کیا وہ اسے تسلیم کریں گے؟ کیا پھر ایک نئی تحریک کی بات نہیں ہوگی؟

ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر میں قومی اسمبلی اور 2 صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات ہونے ہیں، ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ان 4 سے 5 ماہ میں موجودہ سیکیورٹی اور معاشی صورتحال میں کچھ بہتری آجائے تو پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کروا لیے جائیں تاکہ ملک میں ایک مستحکم حکومت ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں