رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

گزشتہ ہفتے امریکا کی ٹیکنالوجی کی صنعت لرز کر رہ گئی۔ اتوار کی شام تک حالات کو کسی بڑے بحران کی صورت اختیار کرنے سے تو روک لیا گیا لیکن اس وقت تک ٹیکنالوجی کی صنعت کی کمزوریاں دنیا کے سامنے آچکی تھیں۔

سلیکون ویلی بینک بہت پہلے سے ہی مالی مشکلات کا شکار تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایسے بانڈز میں سرمایہ کاری کی تھی جن کا منافع افراط زر کی شرح سے کم تھا۔ فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے بعد بھی ان بانڈز کے منافع پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بینک اپنے صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار رقم نہیں بنارہا تھا۔ جب بینک نے اس صورتحال کو درست کرنے کی کوشش کی تو یہ مزید مشکل میں پڑگیا۔

مہنگائی کے اس دور میں گھبراہٹ کا شکار سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں نے اسے خطرے کی علامت سمجھا۔ چونکہ ٹیکنالوجی کی صنعت اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والے سوشل میڈیا سے جڑے رہتے ہیں اس وجہ سے تیزی سے خوف و ہراس پھیلا۔ پھر پیٹر تھیل جیسے وینچر کیپیٹلسٹس نے یہ کہہ دیا کہ جس جس کی رقم بینک میں موجود ہے وہ اسے نکال لے۔ یوں جمعے تک بینک ڈیپازٹس کی درخواستوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوا اور بلآخر بند ہوگیا۔ اس کے بعد فیڈرل ڈیپازٹ انشورنس کمپنی میدان میں آئی جس نے بینک کے منیجروں کو تو گھر بھیج دیا لیکن کیشیئرز کو کام کرتے رہنے کا کہا۔

سلیکون ویلی بینک اس قسم کا بینک نہیں ہے جس میں زیادہ تر لوگ اپنا پیسہ رکھتے ہیں۔ اس بینک کے بڑے صارف دراصل سلیکون ویلی ٹیک اسٹارٹ اپس تھے۔ یہ بینک ان لوگوں کو قرض دینے کے لیے جانا جاتا تھا جنہیں روایتی بینک سمجھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے ٹیک اسٹارٹ اپس نے بینک میں اپنے ذخائر رکھے۔ یہ بینک روایتی بینکوں سے یوں مختلف تھا کہ روایتی بینکوں کے صارفین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جن میں سے اکثر کے چند ہزار ڈالر کے سیونگ یا چیکنگ اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس سلیکون ویلی بینک کے صارفین کی تعداد بہت کم تھی لیکن ان کے ڈپازٹس بہت زیادہ تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اکاؤنٹس کو ٹیک اسٹارٹ اپس نے اپنے قرض دہندگان اور یقیناً اپنے ملازمین کو ادائیگی کے لیے استعمال کیا۔ اس کے بند ہونے کے وقت سلیکون ویلی بینک کے پاس 209 ارب ڈالر کے اثاثے تھے۔

اس پورے واقعے نے ظاہر کیا کہ اس بینک کا بند ہونا نہ صرف امریکا بلکہ بیرون ملک بھی ٹیکنالوجی سے متعلق معیشت کے لیے ایک انتباہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلیکون ویلی بینک وہ تھا جس نے ممبئی سے بیجنگ تک ٹیک اسٹارٹ اپس کو امریکی بینک اکاؤنٹس کھولنے اور ان سرمایہ کاروں کی نظروں میں آنے میں مدد کی جو کہ نئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر بہت سے ہندوستانی اسٹارٹ اپس نے بھی اس بینک میں صرف اسی وجہ سے اکاؤنٹس کھلوائے تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں عالمی رسائی مل سکے۔

امریکا میں وفاقی حکومت کی طرف سے انشورڈ بینک اکاؤنٹس میں رکھی گئی رقم صرف اس وجہ سے غائب نہیں ہوسکتی کہ ایک بینک دیوالیہ ہوجائے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انشورڈ رقم کی حد ڈھائی لاکھ ڈالر ہے۔ عام طور پر تو یہ کسی بھی بینک کے سرمایہ کاروں کی اکثریت کا احاطہ کرلیتی ہے لیکن سلیکون ویلی بینک کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ جمعے کی دوپہر کو ان سرمایہ کاروں میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ راتوں رات ختم ہونے والی اپنی جمع پونجی واپس کیسے حاصل کریں گے۔

غیر ملکی ٹیک اسٹارٹ اپس کو پہلے ہی ایک مشکل کا سامنا ہے کیونکہ امریکی کھاتے دار تو اپنی رقم نکال سکتے ہیں اور اسے دوسرے بینکوں میں منتقل کرسکتے ہیں لیکن اس کے برعکس ممکن ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کے پاس اپنا پیسہ منتقل کرنے کے لیے کوئی دوسرا امریکی بینک اکاؤنٹ نہ ہو۔

جن غیر ملکی ٹیک اسٹارٹ اپس نے اپنا پیسہ سلیکون ویلی بینک میں رکھا ان میں چینی بائیوٹیک فرم زائی لیب جیسی کمپنیاں بھی شامل تھیں جنہوں نے اس میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم رکھی تھی۔ ایک اور ہندوستانی گیمنگ فرم نظارہ ٹیکنالوجیز کے70 لاکھ ڈالر موجود تھے۔ اسٹارٹ اپ وائے کمبینیٹر کی طرف سے جمع کروائی گئی پٹیشن کے مطابق سلیکون ویلی بینک میں اکاؤنٹ رکھنے والے 10 ہزار سے زائد ہندوستانی اسٹارٹ اپ اور ہزاروں ہندوستانیوں کو شاید ادائیگی ممکن نہ ہوسکے۔

امریکی حکومت یہ جانتی تھی کہ نقصان کو محدود رکھنے کے لیے اسے مارکیٹ کھلنے سے پہلے ہی کچھ کرنا ہوگا۔ اتوار کی شام تک حکومت نے ایسا کر بھی دیا اور کہا کہ جس کسی کے پیسے بھی سلیکون ویلی بینک میں موجود تھے اسے پیر کے روز اپنی مکمل رقم تک رسائی حاصل ہوگی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ’ٹیکس دہندگان کو اس کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا‘۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد دنیا بھر میں لوگوں اور اداروں نے سکون کا سانس لیا۔

امریکی حکومت بینکوں کو بیل آؤٹ کرسکتی ہے اور رقوم کی ضمانت بھی دے سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی عوام واقعی ٹیکس ادا کرتے ہیں جنہیں اقتدار میں بیٹھے افراد کے بینک اکاؤنٹ بھرنے کے بجائے دیگر کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری وجہ یقیناً یہ ہے کہ عالمی ریزرو کرنسی ڈالر ہے۔ دیگر وجوہات میں یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں زیادہ تر امریکا میں مرکوز ہیں اور اگر وہ امریکا میں نہیں بھی ہیں تو ان کے بینک اکاؤنٹ امریکا میں ضرور ہیں۔

چند حکومتیں ہی اس قسم کا تحفظ فراہم کرسکتی ہیں جہاں ان کے پاس خود اتنا سرمایہ ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کسی ڈوبتے بینک کو سہارا دے سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور جدت کے لیے صرف قابلیت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس سے زیادہ سرمائے اور اس سرمائے کی ضمانت دینے والے مزید سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر چین یا بھارت ٹیکنالوجی کے گڑھ بننا چاہتے ہیں تو انہیں بھی اپنے اندر ایسی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔

سلیکون ویلی بینک اب بھی ایک دیوالیہ بینک ہے اور اگرچہ امریکی حکومت بینکوں کو بیل آؤٹ کر سکتی ہے لیکن وہ دنیا کے امیر ٹیک سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ٹیکس دہندگان کی رقم کے استعمال کے سیاسی نتائج سے بچ نہیں سکتی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد اوباما انتظامیہ کی طرف سے جو نگرانی اور جانچ پڑتال کا نظام بنایا گیا تھا وہ سلیکون ویلی بینک کے بارے میں بہت جلد خبردار کرسکتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ نگرانی اور ریگولیٹری طریقے وہی تھے جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے ختم کر دیا تھا۔ یہ سب آنے والے مہینوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا باعث بنے گا کیونکہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن اس بارے میں بحث کریں گے کہ یہ سب کس کی غلطی تھی۔


یہ مضمون 15 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں