ایک دہائی قبل تعلقات منقطع ہونے کے بعد ترک وزیر خارجہ کا پہلی بار مصر کا دورہ

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2023
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں —تصویرخ: اے ایف پی
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں —تصویرخ: اے ایف پی

مصر اور ترکیہ کے تعلقات میں حائل برف پگھلنے لگی اور انقرہ کے اعلیٰ سفارت کار نے ایک دہائی قبل تعلقات منقطع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ قاہرہ کا دورہ کیا اور اپنے مصری ہم منصب سے بات چیت کی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2013 میں مصر کے اس وقت کے آرمی چیف عبدالفتح السیسی کی جانب سے اخوان المسلمون کے محمد مرسی، جو انقرہ کے اتحادی تھے، کی معزولی کے بعد تعلقات شدید کشیدہ ہو گئے تھے تاہم 2021 سے آہستہ آہستہ بحالی کی طرف گامزن ہیں۔

اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے کہا کہ ترکیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے امکان پر بات چیت ’مناسب وقت‘ پر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت ’ایماندارانہ، گہری اور شفاف‘ رہی۔

ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے کہا کہ ترکیہ، مصر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ’جلد سے جلد‘ سفیر کی سطح پر اپ گریڈ کرے گا۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم مصر کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں اور اپنی پوری کوشش کریں گے کہ مستقبل میں اپنے تعلقات کو دوبارہ نہ توڑا جائے‘۔

ادھر امریکا نے اس دورے کا خیر مقدم کیا، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ ’مزید مستحکم اور خوشحال خطے کی جانب ایک اہم قدم ہے‘۔

گزشتہ ماہ سامح شکری نے ترکیہ اور شام میں آنے والے زبردست زلزلوں کے بعد یکجہتی کے اظہار کے لیے ترکیہ کا دورہ کیا تھا جو تعلقات میں خرابی کے بعد مصر کے اعلیٰ سفارت کار کا ترکیہ کا پہلا دورہ تھا۔

مصری وزیر خارجہ کے دوحہ میں ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے صدور کی جانب سے سیاسی عزم اور ہدایات موجود ہیں تاکہ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کی راہ کا آغاز کیا جا سکے’۔

وہ قطر ورلڈ کپ میں عبدالفتح السیسی اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ہونے والی مختصر ملاقات کا حوالہ دے رہے تھے جہاں انہوں نے مصافحہ کیا تھا۔

طیب اردوان نے ایک بار عبدالفتح السیسی کو ’ظالم‘ کہا تھا جب انہوں نے مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا، جو ترک رہنما اور اس کی اسلام پسند اے کے پارٹی کے اتحادی تھے۔

ترکیہ کی جانب سے مصر، متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے کوششوں کے درمیان انقرہ اور قاہرہ میں وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام کے درمیان 2021 میں مشاورت کا آغاز ہوا۔

اس عارضی مفاہمت کے ایک حصے کے طور پر انقرہ نے ترکیہ میں کام کرنے والے مصری اپوزیشن ٹی وی چینلز سے کہا کہ وہ مصر پر اپنی تنقید کو معتدل کریں۔

یاد رہے کہ محمد مرسی 2019 میں مصر کی جیل میں انتقال کر گئے تھے جبکہ اخوان المسلمون کے دیگر سینئر اراکین مصر میں جیل میں بند ہیں یا بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں اور یہ گروپ بدستور غیر قانونی ہے۔

قاہرہ اور انقرہ کے درمیان لیبیا پر بھی اختلافات رہے ہیں، جہاں انہوں نے ایک غیر حل شدہ تنازع میں مخالف دھڑوں کی حمایت کی تھی، اور گیس سے مالا مال مشرقی بحیرہ روم میں سمندری سرحدوں پر بھی تنازع تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں