وزارت سائنس کے ماتحت ادارے میں غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف

24 مارچ 2023
انکوائری رپورٹ این ایم آئی پی کی نگرانی کرنے والی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری کو جمع کرائی گئی تھی—تصویر: فیس بک
انکوائری رپورٹ این ایم آئی پی کی نگرانی کرنے والی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری کو جمع کرائی گئی تھی—تصویر: فیس بک

ایک انکوائری میں نیشنل میٹرولوجی انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان (این ایم آئی پی) میں غیر قانونی تعیناتیوں اور قواعد کی خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

این ایم آئی پی میٹرولوجی یا پیمائش کے سائنسی مطالعہ کا اعلیٰ ادارہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این ایم آئی پی کی نگرانی کرنے والی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری کو جمع کرائی گئی انکوائری رپورٹ میں میٹرولوجی انسٹی ٹیوٹ کی قائم مقام ڈائریکٹر جنرل فوزیہ خان اور دیگر کے خلاف جعلسازی، جوڑ توڑ، ثبوت تباہ کرنے اور ریاست کو غیر قانونی نقصان پہنچانے کے الزامات پر ایف آئی اے کے ذریعے فوجداری کارروائی کی تجویز دی گئی ہے۔

اگرچہ انکوائری رپورٹ گزشتہ سال ستمبر میں وزارت کو پیش کی گئی تھی لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ڈان کی نظر سے گزری رپورٹ میں این ایم آئی پی کی جانب سے نومبر 2021 میں ملازمین کی بھرتی میں بے ضابطگیوں اور جعلسازی کا پتا چلا اور یہ بھی کہ اسامیوں کی تعداد بغیر اجازت اور میٹرولوجی انسٹی ٹیوٹ کی منظور شدہ تعداد سے زیادہ بڑھائی گئی۔

انکوائری کمیٹی کی سربراہی وزارت سائنس کے سابق جوائنٹ سیکریٹری حسن علی خان لغاری کر رہے تھے۔

یہ ادارہ پہلے نیشنل فزیکل اینڈ اسٹینڈرڈ لیبارٹری (این پی ایس ایل) کہلاتا تھا تاہم نیشنل کوالٹی پالیسی 2021 کی منظوری کے بعد اس ڈپارٹمنٹ کا نام بدل کر نیشنل میٹرولوجی انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان رکھ دیا گیا۔

یہ ادارہ 1974 میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کے ترقیاتی منصوبے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔

سال 1983 میں اس نے پی سی ایس آئی آر کے ایک یونٹ کے طور پر اسلام آباد میں اپنے موجودہ احاطے میں کام کرنا شروع کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گریڈ ایک سے 15 تک 42 آسامیوں کا اشتہار دیا گیا تھا لیکن ادارے نے 66 ملازمین کو بھرتی کیا۔

کمیٹی نے خاص طور پر سعد حسن کے معاملے پر روشنی ڈالی، جس کی اصل میں گریڈ ایک میں لیب اٹینڈنٹ کے طور پر سفارش کی گئی تھی لیکن بعد میں انہیں ’انتہائی پراسرار طریقے سے‘ اور مبینہ طور پر جعلسازی کے ذریعے متبادل امیدوار کے طور پر گریڈ 11 کے عہدے کی پیشکش کی گئی۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ سعد حسن نے لازمی تربیت بھی نہیں لی تھی، جیسا کہ اشتہار میں خاص طور پر اس عہدے کے لیے ذکر کیا گیا تھا۔

انکوائری کمیٹی نے وزارت کو بتایا کہ ’سعد حسن کا تقرر ابتدا سے ہی غلط تھا، دھوکا دہی کی چالوں کے باعث اسے واپس لیا جاسکتا ہے اور اسے فوری طور پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہےکیونکہ یہ جعلسازی کی کارروائیوں پر مبنی تھا اور انہیں تنخواہ کی شکل میں ادا کی گئی رقم وغیرہ اور فراہم کردہ تمام مراعات کی واپس وصول کی جاسکتی ہے‘۔

کمیٹی نے تجویز دی کہ درحقیقت تمام بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ضابطہ اور پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بھرتی کیے گئے افراد کی خدمات پروبیشنری مدت کے دوران ختم کی جا سکتی ہیں، باوجود اس کے کہ قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے لیکن سچائی کی فتح ہونی چاہیے۔‘

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’فوزیہ خان، راشد محمود چوہدری اور نعیم الٰہی کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے جعلسازی، من گھڑت اور شواہد کو تباہ کرنے اور ریاست کو غیر قانونی نقصان پہنچانے کے جرم میں فوجداری کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں