قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی عدالتی اصلاحات بل کثرت رائے سے منظور، اپوزیشن کا احتجاج

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2023
وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ مردم شماری کے لیے 35 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ مردم شماری کے لیے 35 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ مردم شماری کے لیے 35 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ مردم شماری کے لیے 35 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی کے بعد آج سینیٹ نے بھی عدالتی اصلاحات بل کثرت رائے سے منظور کرلیا جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں سوال و جواب کے سیشن کے بعد مختلف بل پیش کیے گئے اور منظوری دی گئی، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحاتی بل کی تحریک پیش کی اور بل کے حوالے سے تفصیلات بتائیں اور اس کے بعد بل کی شق واری منظوری دی گئی۔

سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔

بل کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن نے بل کی کاپیاں پھاڑی اور احتجاج کیا اور شور شرابا کیا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد صدر مملکت کو دستخط کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور اگر صدرمملکت اس پر رائے نہیں دے تو 10 روز کے اندر پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل از خود قانون بن جائے گا۔

عدالتی اصلاحتی بل عدالت عظمیٰ کو ادارہ جاتی طور پر مضبوط کرے گا، وزیر اعظم

سینیٹ سے بل منظور ہونے پر رد عمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمان سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 عدالت عظمیٰ کو ادارہ جاتی طور پر مضبوط کرے گا۔

اپنے ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ اس بل سے بینچ کی تشکیل اور آرٹیکل 184 (3) کے عمل کو شفاف اور جامع بنانے میں مدد ملے گی، اس سے انصاف کی فراہمی میں مدد ملے گی۔

شخصی اجارہ داری کے بجائے اجتماعی سوچ کو فروغ دینے کیلئے قانون سازی کی گئی، وزیر قانون

اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پارلیمان آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے اور قانون سازی کو ریگولیٹ کرسکتی ہے، آئین کے ساتھ ساتھ اس قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز آف پروسیجر کے حوالے سے یہ بل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 191 کے تحت رولز بنائے جو 1980 میں بنائے گئے اور مختلف ادوار سے گزرے، گزشتہ دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں بالخصوص ایک نیا رجحان دیکھا کہ عدالت اتفاق رائے سے چلانے کے بجائے فرد واحد کے تحت آزاد ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے چیف جسٹس بھی آئے جنہوں نے سپریم کورٹ کے بنیادی حدود کو ایسے استعمال کیا کہ پورے پاکستان کے مختلف گوشوں سے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے سے چاہے وہ بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز ، پارلیمان، سول سوسائٹی، کاروباری طبقہ ہو یا سرکاری ملازمین سب کی طرف سے آوازیں اٹھیں کہ آئین میں ایک ترکیب دی گئی ہے کہ قانون سازی مقننہ کا کام ہے اور عدالتی امور فیصلے دے گی اور ملک چلانے کے لیے مشینری انتظامیہ کے تابع ہوگی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کہتا ہے آپ ایک دوسرے کی حدود میں غیر ضروری مداخلت نہ کریں، پچھلے 15 یا 20 سال ایک نظر سے دیکھیں جب آئین کے آرٹیکل 184 تھری کا بے دریغ استعمال ہوا، بات بات پر انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ایسے مقدمات پر ازخود نوٹس لیا گیا کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں کہ آیا یہ آئینی اختیار ہی استعمال ہو رہا ہے، گلیوں کی صفائی سے لے کر ہسپتال کی بیڈ شیٹس تک، جیلوں میں پکنے والے کھانوں سے لے کر اسکول جانے والے بچوں کے یونیفارم اور اساتذہ کی تعیناتیوں تک تمام معاملات تھے اس کے علاوہ اور کہانیاں بھی ہیں، اربوں روپے سے بنایا گیا ہسپتال پی کے ایل آئی ایک چیف جسٹس کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا اور اب تک بحال نہ ہوسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بارز نے بارہا مطالبہ کیا اور اس ایوان سے بھی ایک سے زائد دفعہ آوازیں اٹھیں کہ آئین کے آرٹیکل 106 کی حد اسٹرکچر کیا جائے اور اس میں اجتماعی سوچ نظر آنی چاہیے نہ کہ وہ کسی فرد واحد کا اختیار ہو کہ وہ کب ازخود نوٹس لے یا کون سا کیس 184 تھری کے دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں آیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بات بار ایسوسی ایشنز سے نکل کر عدل کے ایوانوں میں بھی گئی، وہاں سے اختلاف اس وقت بھی ہوا اور اس کے بعد بھی ہوا، ازخود نوٹس کیسز نے ملک کو اربوں ڈالرز کے نقصانات بھی پہنچائے۔

انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں بھی کہا گیا کہ قانون سازی کا اگر آپ کو اختیار ہے تو آپ یہ معاملہ حل کیوں نہیں کرتے، وزارت قانون و انصاف کافی عرصے سے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کافی عرصے کام کر رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں جو بل متعارف کروایا گیا وہاں اسمبلی نے اس پر بحث کی اور آرا آنے کے بعد اس پر دو ترامیم بھی لی گئیں اور کل اس کو منظور کرلیا گیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تفصیلات بتائیں کہ بینچز کی تشکیل پر سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں آئیں اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تجویز کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام 17 جج برابر ہیں اور ادارے کو چلانے کے لیے اجتماعی سوچ ہی بنیاد رکھتی ہے اور اجتماعی سوچ ہی اداروں کو آگے لے کر چلتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو پھر شخصیت مضبوط کرنے کے بجائے ادارہ مضبوط کریں تاکہ ادارہ ڈیلیور کرسکے اور قومی اسمبلی میں بحث کے بعد یہ بل منظور ہوا ہے۔

اس بل کے سیکشن دو کے تحت بینچز کی تشکیل اور مقدمات کی تقسیم کا اختیار تین جج استعمال کریں گے، جن میں چیف جسٹس، سنیارٹی میں دوسرے نمبر اور تیسرے نمبر پر موجود جج اس میں شامل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی بینچز اور مقدمات کی تشکیل اور تقسیم کے فرائض انجام دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں تلخ تجربات کیے کہ بیسویں مقدمات کے بارے میں یہ فیصلہ کہ آج لگنا ہے یا کل لگنا ہے یا عوام کی دلچسپی کا ہے اور اس طرح کے معاملات حل ہوجائیں گے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ بہت اہم قومی مقدمہ ایک ایسے بینچ کے سامنے رکھا گیا جس میں 3 یا 5 جج صاحبان تھے حالانکہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ فل کورٹ اس مقدمے کو سنے۔

انہوں نے کہا کہ فل کورٹ رولز بناسکتی ہے لیکن شومئی قسمت کہیں کہ آخری فل کورٹ 2019 میں ہوئی، لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے اس ادارے میں جس کو رول ماڈل ہونا چاہیے، وہاں بھی مشاورت نہیں ہے اور اتفاق رائے نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تجویز کیا گیا ہے کہ جب 184 تھری کے تحت بنیادی دائرہ اختیار میں درخواست دائر کی جاتی ہے یا سپریم کورٹ کسی معاملے پر ازخود نوٹس لینا چاہتی ہے تو پھر یہی تین سینئر ججز کی کمیٹی جائزہ لے اور بینچ تشکیل دے اور تینوں جج اس بینچ کا حصہ ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی تشریح درکار ہو تو کم ازکم 5 جج صاحبان کا بینچ ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے، 18ویں ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا اور یہ اس وقت کی پارلیمان کے حوالے سے سنہرے حروف سے لکھا جائے گا، یہ شق شفاف ٹرائل یقینی بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے فیصلہ دیا کہ دین اور شریعت کہتی ہے کہ آپ کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو اس کے خلاف اپیل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ آخری عدالت ہے، جو مقدمہ نہ سول کورٹ جاتا ہے، نہ ضلعی عدالت میں جاتا ہے اور نہ عدالت عالیہ میں جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو فریق کے درمیان کوئی معاملہ تصفیہ طلب ہے تو اس کو عوامی مفاد میں لا کر لوگوں کے ذاتی حقوق اور جائیدادوں کے حوالے سے کراچی میں ایک عمارت گرا دو اور اسلام آباد میں دو ٹاور بڑے قیمتی ہیں انہیں نہیں گراؤ تو یہ انصاف کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس طرح کی ناانصافیاں ختم کرنے کے لیے پارلیمان نے بارز اور وکلا کے مطالبے تھے اور ان ترامیم کے حوالے سے وکلا متفق ہیں جبکہ وہاں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن ان ترامیم کو دونوں طرف سے پذیرائی ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہی کمیٹی بینچ بنائے گی جو لارجر ہوگا اور جو ناانصافیاں کی گئی ہیں اس کے لیے ایک موقع دیا گیا ہے اور جب یہ قانون بنے تو اس کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں وکیل کے انتخاب کا حق دیا گیا اور اپیل کا حق 188 کے تحت فراہم کیا گیا ہے، جو نظرثانی کی اپیل میں سپریم کورٹ رولز کے ذریعے قدغن ڈالی گئی کہ جس وکیل نے اپ کا مرکزی مقدمہ لڑا ہے وہی اپیل دائر کریں گے اور وہی کیس لڑیں گے تو اس پر قانون سازی کی گئی، جو دیرینہ مطالبہ تھا۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں درخواست دائر کرتے ہیں تو اس کے ساتھ فوری سماعت کی درخواست لگاتے ہیں جو اسی دن یا اگلے دن مقرر کردیا جاتا، لیکن سپریم کورٹ رولز میں اس پر کوئی موقع نہیں دیا گیا اور خلا موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے تحت انہیں پابند کر رہے ہیں کہ فوری سماعت کے معاملات 14 روز سے آگے نہیں جائیں گے اور دو ہفتوں میں مقرر کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس بل کے اغراض و مقاصد ہیں، نیک نیتی اور عوام کے بھلے کے لیے، 22 کروڑ لوگوں کے فائدے کے لیے اور پاکستان کی عدلیہ کے سب سے بڑے ادارے میں شخصی اجارہ داری کے بجائے اجتماعی سوچ کو مضبوط اور فروغ دینے کے لیے پیش کیا گیا اور مثبت سوچ کے ساتھ لے کر اس سے منظور کرلیا جائے۔

یہ مفادات کا بل ہے، قائد حزب اختلاف

قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ عوام اور قانون کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ نیک نیتی کے ساتھ اصلاحات کا بل ہے لیکن یہ اصلاحات کا نہیں بلکہ مفادات کا بل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کے سیاسی اور ان کے ذاتی مفادات کا بل ہے، اپنے مفادات کو بیچ میں رکھا اور اس پر اصلاحات کا کور چڑھا کر خوش نما بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی اصلیت اور اغراض و مقاصد یہ چھپا نہیں سکتے، اس ملک میں اقتدار پر بھی اشرافیہ قابض ہے، ان کے لیے آئین میں بھی صرف نظر ہو جاتا ہے اور ان کے لیے قوانین بھی بن جاتا ہے۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ اشرافیہ چاہے تو ان کے لیے پانی پر بھی راستہ بن جاتا ہے اور عوام اس پانی میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ ان کی لاش بھی اوپر کی سطح تک نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کی یہ حالت ہے، یہ قانون اور آئین ہے جس کو انہوں نے موم کی ناک بنایا ہے اور جہاں دل آتا ہے ادھر موڑتے ہیں اور اپنا مقصد نکالتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ 100 فیصد ذات سے متعلق قانون لے کر آرہے ہیں، یہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہاں نیب قوانین بھی اسی طرح آئے تھے، ای وی ایم اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق بھی روندا تھا اور آج پھر اس ایوان پر ایک اور بلڈوزر پھیرنے جارہے ہیں، نام عوام کا اور کام اپنا اور یہی اس بل کی حقیقت اور اصل چیز ہے۔

تشویش ہے ادارے دست و گریباں ہو رہے ہیں، رضا ربانی

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ میں اس بات کو ماننے سے قاصر ہوں کہ اس بل کا تعلق آئین کے اندر 90 دن کے اندر الیکشن کی شق سے ہے، آئین میں ایک شق دی گئی ہے اس کا پورا ہونا لازم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وکلا برادری کا پرانا مطالبہ رہا، پھر بار ایسوسی ایشنز اور پھر بارکونسلز کا مطالبہ بنا، لاتعداد قراردادیں ہیں جس میں بار کونسلز نے مطالبہ کیا گیا کہ جو صورت حال سپریم کورٹ میں بالخصوص از خود نوٹس کی نسبت سے بن رہی ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جب کسی بھی معاشرے کے اندر ادارے آپس میں دست و گریباں ہونے لگے تو وہ پورے ملک اور ریاست کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہوتے ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ ہم یہاں ایک چیز تو دیکھی ہے کہ پارلیمان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیرفعال کر دیا گیا، جو پچھلے چند دنوں سے سپریم کورٹ کے اندر جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے، جو ریاست پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بار کونسلز اور عام آدمی کا مطالبہ تو پہلے سے تھا لیکن اب یہ سپریم کورٹ کے اندر سے بھی ازخود آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارلیمان کے بجائے اپنے تنازعات عدلیہ کے پاس لے کر گئیں، جس کی وجہ سے عدلیہ پر دباؤ آیا کہ ان کو سیاسی تنازعات پر ملوث ہونا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ثالثی کی بات ہو رہی ہے تو عدلیہ ثالث بن سکتی ہے، نہ تو آئین کے تحت کردار ہے اور نہ وہ بن سکتے ہیں، ثالث کے لیے پارلیمان، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کا کردار ہے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے کل منظور کر لیا گیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا مقصد ازخود نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو انفرادی حیثیت میں حاصل اختیارات کم کرنا ہے۔

بل وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا اور اسمبلی سے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا۔

بل کی شقیں

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے قومی اسمبلی سے آج ترامیم کے بعد منظور کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

مردم شماری کے نتائج آگئے تو انتخابات اسی کے مطابق ہونے چاہئیں، وزیرقانون

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے اس سے قبل کہا کہ اس وقت ملک میں مردم شماری جاری ہے اور اگر نتائج آگئے اور اس کی توثیق ہوگئی تو حلقہ بندیاں اور عام انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس شروع ہوا تو پاک فوج کے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور زلزلوں میں شہید ہونے والے افراد سابق سینیٹر ستارہ ایاز کی والدہ کے انتقال پر دعا کی گئی اور اس کے بعد سینیٹرز کے سوالا لیے گئے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مردم شماری کے حوالے سے ایک سوال پر جواب دیا کہ 2017 میں جب مردم شماری ہوئی تو اس پر کافی اعتراضات آئے تھے اور 2017 کے آخر میں تمام جماعتوں کا پارلیمانی اجلاس ہوا تھا اور اس پر ایک معاہدہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نکات یہ تھے کہ 2018 کے انتخابات عبوری نتائج پر ہوں گے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51 کی منشا یہ ہے کہ عام انتخابات گزشتہ مردم شماری کے مطابق ہوں گے کیونکہ حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب ہوتی ہے اور وسائل کی تقسیم بھی اسی حساب سے ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں نے اتفاق رائے سے معاہدے پر دستخط کیا کہ 2023 کے انتخابات سے پہلے ڈیجیٹل مردم شماری کرائی جائے گی اور اس معاہدے کے نتیجے میں 2018 کے انتخابات کو قانونی شکل دینے اور آئین کے عین مطابق رکھنے کے لیے آرٹیکل 51 میں ایک دفعہ کے لیے ترمیم کی گئی اور اس میں کہا گیا کہ 2018 کے انتخابات عبوری مردم شمار پر ہوں گے۔

وزیرقانون نے کہا کہ 2018 کے انتخابات ہوگئے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آگئی اور وہ اس معاہدے کا حصہ تھی اور ان سے بارہا کہا گیا مردم شماری کرادیں لیکن کرتے کرتے پچھلے سال انہوں نے اعلان کیا اور موجودہ حکومت نے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 23-2022 کے بجٹ میں 35 ارب روپے مختص کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری اور خانہ شماری ہو رہی ہے اس کا آغاز یکم مارچ کو ہوچکا ہے اور اس عمل کی ذمہ داری وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کی ہے اور 30 اپریل سے پہلے پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آیا عام انتخابات مردم شماری کی موجودگی میں جب تک مردم شماری نوٹیفائی نہ ہوسکتے ہیں یہ آئینی سوال ہے اور یہ مسئلہ آئے گا، آرٹیکل 58 کی منشا یہ ہے کہ عام انتخابات گزشتہ مردم شماری کے تحت کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ موجودہ مردم شماری کی تصدیق ہوتی ہے، نتائج آجاتے ہیں تو پھر حلقہ بندیاں اور انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہیئں۔

مردم شماری پر لوگوں کو خدشات ہیں، فیصل سبزواری

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیٹر اور وفاقی وزیر فیصل سبزواری نے کہا کہ 2017 میں مردم شماری پر سندھ بالخصوص کراچی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لوگوں کو تحفظات تھے، اس لیے اس وقت کی پارلیمان کی تمام جماعتوں نے کہا کہ اس کا آڈٹ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مردم شماری اس لیے ہو رہی ہے کہ 2017 کی مردم شماری پر سب کا اتفاق نہیں تھا۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ اب جو پریشان کن صورت حال خاص طور پر کراچی شہر سے ہمارے سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ 35 ارب روپے مختص کرنے اور ڈیجیٹل مردم شماری قرار دیے جانے کے بعد اگر لوگوں کے ذہنوں میں خدشات پلنے شروع ہوجائیں اور مردم شماری کے سربراہ یہ کہیں کہ رہائشی بلاکس میں 6 سے 7 برسوں میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہاؤس ہولڈ میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے حساب سے نمبر نکال کر بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی مردم شماری کوئی نہیں مانے گا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام خدشات متعلقہ محکمے ادارہ شماریات، مردم شماری کمشنر ہوں اور نادرا کو شامل کرنا چاہیے اور مردم شماری کو شفاف بنانا چاہیے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے نیشنل یونیورسٹی پاکستان کی تشکیل کا بل 2023 ایوان میں پیش کردیا اور چیئرمین نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے دو دن میں واپس ایوان میں لانے کی ہدایت کی۔

معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، اسحٰق ڈار

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، میثاق معیشت کر سکتے ہیں، گزشتہ 5 سال میں فراڈ پالیسیوں اور نااہلی کے باعث یہ معاشی صورت حال ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز اور سینیٹر فیصل جاوید کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 2017 کی مردم شماری پر بھاری اخراجات آئے، بھاری اخراجات کے باوجود اس پر سنجیدہ تحفظات تھے جن کے باعث 2018 کے انتخابات میں مسئلہ تھا، یہ مردم شماری 1973 کے آئین کے تحت ہے۔

انہوں نے کہا کہ نادرا کے تعاون سے جدید نظام کے تحت بچت کی جاسکتی ہے، اگر اس کے لیے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے تو یہ کی جاسکتی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ابھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پرانی مردم شماری پر ہونے چاہئیں یا نہیں، اگر یہ انتخابات ہوجاتے ہیں تو اکتوبر میں عام انتخابات میں کیا صورت حال ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عالمی سطح پر کوئی وعدہ نہیں توڑا، تمام ادائیگیاں بروقت کی گئی ہیں، سابق حکومت نے عالمی سطح پر معاہدہ توڑا جس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین کے بینکوں نے اپنا قرضہ رول اوور کر دیا ہے، مشکل کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور شرح سود میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، میثاق معیشت کرسکتے ہیں، یہ قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مہنگائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی سمیت دیگر مسائل ایک دوسرے سے منسلک ہیں، گزشتہ 5 سال میں فراڈ پالیسیوں اور نااہلی کے باعث یہ معاشی صورت حال ہے، اسی ایوان میں اسٹیٹ بینک سے متعلق ترامیم کی گئیں، مالیاتی پالیسی پر حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں