5رکنی بینچ ہو یا فل کورٹ، جاننا چاہتے ہیں انتخاب 90 روز میں ہو رہے ہیں یا نہیں، عمران خان

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2023
مریم نواز نے کہا کہ بات یہ کہ وہ سازش جو تم  نے نئے سہولت کاروں کی مدد سے تیار کی تھی وہ پکڑ لی گئی ہے— فائل فوٹو: رائٹرز/پی ٹی آئی ٹوئٹر
مریم نواز نے کہا کہ بات یہ کہ وہ سازش جو تم نے نئے سہولت کاروں کی مدد سے تیار کی تھی وہ پکڑ لی گئی ہے— فائل فوٹو: رائٹرز/پی ٹی آئی ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پانچ رکنی بینچ ہو یا فُل کورٹ، ہمیں اس سےکچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انتخابات 90 روز کے اندر ہو رہے ہیں یا نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس امین الدین کی جانب سے سماعت سے معذرت کے بعد موجودہ بینچ کے دیگر چار ججز جمعہ کی صبح ساڑھے 11 بجے مقدمے کی سماعت کریں گے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں الیکشن کی تاریخ ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ کے ٹوٹنے پر ردعمل دیتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ میں نے اپنی 2 اسمبلیاں تحلیل کرنے سے قبل اپنے چوٹی کے آئینی ماہرین سے مشاورت کی اور ان سب کی متفقہ رائے تھی کہ انتخاب کے 90 روز میں انعقاد کے حوالے سے متعلقہ آئینی شق کو پھلانگنا ممکن نہیں۔

عمران خان نے کہا کہ مجرموں کی امپورٹڈ سرکار، اس کے سرپرست اور ایک نہایت متنازعہ الیکشن کمیشن اب آئین کا کھلا مذاق اڑانے پر اتر آئے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ دستور کے مختلف حصوں/شقوں کو خود کے لیے قابلِ عمل جبکہ دیگر کو ناقابلِ نفاذ قرار دیکر یہ گروہ دراصل پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہے جو آئین و قانون کی حکمرانی پر استوار ہے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ یہ انتخابات سے اس حد تک خوفزدہ اور اپنے سزا یافتہ مجرم قائدین کو بچانے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ دستور و قانون کی حکمرانی کی آخری علامت تک کو مٹانے پر آمادہ ہیں، پانچ رکنی بینچ ہو یا فُل کورٹ، ہمیں اس سےکچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آئین میں فراہم کردہ مدت (90روز) کے دوران انتخابات ہو رہے ہیں یا نہیں۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک اور بیان میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کا واحد حل آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہیں۔

سرٹیفائیڈ آئین شکن کے منہ سے آئین جیسی مقدس شے کا نام لینا بھی گھناؤنا مذاق ہے، مریم نواز

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیئر نائب صدر مریم نواز نے پی ٹی آئی چیئرمین کو ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سرٹیفائیڈ آئین شکن کے منہ سے آئین جیسی مقدس شے کا نام لینا بھی گھناؤنا مذاق ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ بات یہ کہ وہ سازش جو تم نے نئے سہولت کاروں کی مدد سے تیار کی تھی وہ پکڑ لی گئی ہے، ملک، ریاست اور ادارے تم جیسے دہشت گرد اور فتنے کے حکم پر نہیں چل سکتے۔اب چُپ کر کے بیٹھ جاؤ۔

واضح رہے کہ عمران خان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس امین الدین کی جانب سے سماعت سے معذرت کے بعد موجودہ بینچ کے دیگر چار ججز جمعہ کی صبح ساڑھے 11 بجے مقدمے کی سماعت کریں گے۔

جسٹس امین الدین نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد میں کیس سننے سے معذرت کرتا ہوں‘، اُن کا اشارہ گزشتہ روز ان کے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری کردہ تجویز کی جانب تھا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تھری (ازخود نوٹس) کے تمام کیسز ملتوی کرنے کا کہا تھا۔

پانچ رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا، اس حوالے سے سپریم کورٹ کے ججز کا چیف جسٹس کے چیمبر میں اجلاس ہوا اور نئے بینچ کی تشکیل اور کیس کو آگے بڑھانے سے متعلق ججز کی مشاورت کی گئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آرڈر کے مطابق بینچ کے اراکین کے بارے میں فیصلہ جمعہ کو کیا جائے گا اور اس کیس کا فیصلہ کرنے والے بینچ میں جسٹس امین الدین خان شامل نہیں ہوں گے۔

22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔

بعدازاں یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا جس میں دونوں صوبوں میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔

دوسری جانب حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس معاملے پر فول کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں جب کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظوری کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کر دیا ہے جس کے تحت سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں