تنخواہوں میں کٹوتی کے باعث بڑی تعداد میں پائلٹوں کے ملک چھوڑ جانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
اجلاس میں جعلی ڈگریوں پر تعینات پی آئی اے ملازمین کا معاملہ بھی اٹھایا گیا — فائل فوٹو: فیس بک
اجلاس میں جعلی ڈگریوں پر تعینات پی آئی اے ملازمین کا معاملہ بھی اٹھایا گیا — فائل فوٹو: فیس بک

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی کو بتایا گیا کہ پائلٹس کی ایک بڑی تعداد نے حال ہی میں زائد ٹیکسوں کی صورت میں تنخواہوں میں کٹوتی کے نتیجے میں ملک چھوڑ دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) عامر حیات نے کمیٹی کو بتایا کہ حال ہی میں 15 پائلٹس ملک چھوڑ چکے ہیں اور ایئرلائن کے لیے نوجوان مرد عملے کی خدمات حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر اپیل ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ہدایت اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواہشمند پائلٹس کا مستقبل خطرے میں ہے، انہوں نے سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے کہا کہ وہ اس معاملے کو سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے ذریعے ایف بی آر کے ساتھ اٹھائیں۔

سینیٹ کمیٹی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی آئی اے) کی جانب سے غیر ملکی ایئرلائنز کے روٹس میں کمی کی وجوہات سے آگاہ کیا گیا۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل خاقان مرتضیٰ نے کہا کہ 31 بین الاقوامی ایئر لائنز نے پاکستان کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے 576 ہفتہ وار تعداد کے ساتھ پاکستان آنے اور جانے کے لیے درخواستیں دی ہیں اور آئندہ موسم گرما کے شیڈول میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی ہے۔

کمیٹی نے استفسار کیا کہ غیر ملکی ایئرلائنز مسافروں کو روپے میں ٹکٹ خریدنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی؟ خاقان مرتضیٰ نے بتایا کہ مسافر دور دراز علاقوں سے وی پی این یا کسی اور ذرائع سے غیر ملکی ایئر لائنز کے ٹکٹ خرید رہے ہیں اور اس کی قیمت پاکستان میں خریدے گئے ٹکٹوں سے نسبتاً کم ہے۔

کمیٹی نے سی اے اے کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔

کمیٹی نے پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس کی منسوخی پر بھی بات کی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی اے اے نے 141 پائلٹوں کے لائسنس کو مشتبہ قرار دیا تھا۔

بریک اَپ سے پتا چلتا ہے کہ 18 پائلٹس پی آئی اے کے ملازم نہیں تھے جبکہ 18 کو سی اے اے کی جانب سے لائسنس کی معطلی/ منسوخی پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا، 16 کی موت اور علیحدہ ہوگئے تھے، دو پائلٹس حکم امتناع پر تھے جن کا فیصلہ زیر التوا تھا اور باقی 87 کو بعد میں سی اے اے نے کلیئر کر دیا تھا۔

اجلاس میں جعلی ڈگریوں پر تعینات پی آئی اے ملازمین کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، پی آئی اے کے سربراہ نے کہا کہ جعلی ڈگریوں کے الزام میں جن افراد کو ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے ان پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا، تاہم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے متاثرہ ملازمین نے ملازمین کی تعیناتی بحال کردی۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایت واضح ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے اور جعلی ڈگریوں پر تعینات ملازمین کو کسی بھی قیمت پر دوبارہ شامل نہ کیا جائے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے نشاندہی کی کہ بھاری ٹیکسوں کی شکل میں تنخواہوں میں بڑی کٹوتیوں کی وجہ سے پائلٹس کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ رہی ہے۔

پی آئی اے کے سربراہ نے اجلاس کو بتایا کہ حال ہی میں 15 پائلٹس ملک چھوڑ چکے ہیں اور پی آئی اے کے لیے نوجوان افرادی قوت کی بھرتی سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے جس پر ابھی سماعت ہونا باقی ہے۔

سینیٹ کی باڈی نے انڈونیشیا میں گزشتہ ایک سال سے گراؤنڈ ہوئے تقریباً 20 ارب ڈالر مالیت کے دو ایئربس اے 320 کے معاملے پر بھی غور کیا۔

پی آئی اے کے سربراہ نے اراکین کو بتایا کہ دونوں طیاروں کی ری ڈیلیوری کا کام بالترتیب 82 اور 92 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے اور یہ طیارے جون کے آخر تک پاکستان پہنچ جائیں گے۔

کمیٹی کو سی اے اے کی جانب سے مختلف کمپنیوں کو لیز پر دی گئی جائیدادوں کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ پی آئی اے کو جائیدادوں کا ایک بڑا حصہ معمولی قیمت پر لیز پر دیا گیا تھا اور ان کے معاہدوں پر طویل عرصے سے نظرثانی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پی آئی اے پر سی اے اے کے 150 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

کوئٹہ اور اسلام آباد کے درمیان پروازوں کی متواتر منسوخی کے بارے میں سی اے اے کے سربراہ نے کہا کہ کوئٹہ ایئرپورٹ کی بحالی کا عمل جاری ہے اور مئی کے آخر تک دن کے وقت آپریشن شروع ہو جائے گا۔

تاہم رات کے وقت آپریشن نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حکومت کی جانب سے ضروری مشینری کی خریداری کے لیے تقریباً 4 لاکھ 57 ہزار یورو مالیت کے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں