چیف جسٹس سیاستدانوں کو مل بیٹھنے کا کہتے ہیں تو یہی اصول اپنے ادارے پر بھی لاگو کرنا ہوگا، وزیر قانون

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
وفاقی وزیر نے کہا کہ آدھی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ 184 تھری کا نہیں ہے بلکہ سیاسی سوال ہے — فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر نے کہا کہ آدھی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ 184 تھری کا نہیں ہے بلکہ سیاسی سوال ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ اگر چیف جسٹس سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کا کہتے ہیں تو یہی اصول ان کو اپنے ادارے پر بھی لاگو کرنا ہوگا اور اجتماعی سوچ سے ایسا فیصلہ صادر ہوگا جو ملک کی سیاسی تقدیر کے لیے مفید ہو۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرا یہ خیال ہے کہ ازخود نوٹس پر سماعت کا معاملہ ایک بار فُل کورٹ میٹنگ میں جائے، چیف جسٹس اپنے گھر کو اکٹھا کریں اور اس کے بعد یہ سماعت شروع ہو۔

انہوں نے کہا کہ 184 (3) کے اختیارات کے استعمال کے حوالے سے جو صورتحال ہے اور جو جوڈیشل فیصلہ موجود ہے جس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے لکھا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس میں تجویز دی گئی ہے کہ ایک فل کورٹ میٹنگ کی جائے اور طریقہ کار طے کیا جائے کہ 184 تھری کے مقدمات کس طرح سے سنے جائیں گے اور بینچز کی تشکیل کیسے ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جب چار رکنی بینچ سماعت کے لیے بیٹھا تو اس میں بھی وہی صورتحال پیدا ہوگئی جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے سماعت سے معذرت کرلی۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے عوام یہ توقع کر رہے تھے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جن کو ادارے کا سربراہ ہونے کے ناطے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے وہ ایسی صورتحال میں پہلے فل کورٹ میٹنگ کریں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ تین رکنی بینچ نے جب سماعت شروع کی تو پاکستان بھر کے وکلا کی اعلیٰ قیادت بشمول وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، چیئرمین ایگزیکٹو بار کونسل، اسلام آباد بار کے صدر اور اٹارنی جنرل نے بھی یہ استدعا کی۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے فی الحال یہ مناسب سمجھا کہ تین رکنی بینچ پر ہی سماعت آگے بڑھائی جائے، ہمیں حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں، یہ بہت بڑا آئینی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ یہ بحران کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا ہم اب بھی یہ توقع کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اعتماد میں لے کر چار، پانچ روز سے گفتگو کا مرکز رہنے والے معاملات پر بات کریں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں شروع دن سے کہہ رہی ہیں کہ جب ایسے معاملات ہوں جن میں سیاسی پولرائزیشن نظر آرہی ہو اور تقسیم نظر آرہی ہو تو کم از کم عدالت کو اکٹھے بیٹھ کر ان کو حل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کا کہتے ہیں تو یہی اصول ان کو اپنے ادارے پر بھی لاگو کرنا ہوگا اور اجتماعی سوچ سے ایسا فیصلہ صادر ہوگا جو ملک کی سیاسی تقدیر کے لیے مفید ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور دیگر نے کل اس حوالے سے سیاسی میٹنگ بھی رکھی ہے تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ ان موجودہ حالات میں اس کیس کی سماعت اگر تین رکنی بینچ کرے گا تو سیاسی استحکام کے حوالے سے دیے گئے فیصلوں پر سوال نہ ہوجائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بار پھر یہ رائے ہے کہ جن حالات سے یہ ملک اور 22 کروڑ عوام دوچار ہے تمام اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اجتماعی سوچ کے ساتھ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بیٹھیں، اگر اقلیتی فیصلے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ بحران مزید سنگین ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ ایک ایسا ملکی معاملہ ہے جو شدید اہم ہے، اچھا ہوتا اگر اس پر فل کورٹ بینچ سماعت کرتا اور حکم جاری کرتا کہ معاملات کو اس نہج میں لے جائیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ آدھی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ 184 تھری کا نہیں ہے بلکہ سیاسی سوال ہے جس کو ہائی کورٹ میں زیر التوا سماعتوں میں حل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سربراہ اختلاف رائے کو نظر انداز کرکے معاملے کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس نے فل کورٹ کا عندیہ دیا ہے، امید ہے کہ پیر کے دن اچھے حل کے ساتھ آئیں گے اور ہم دیکھیں کہ سپریم کورٹ اجتماعی طور پر بیٹھ کر ملک کو آئینی راستہ اور سیاسی استحکام دینا چاہتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں