کراچی: نجی کمپنی میں زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران بھگدڑ، خواتین و بچوں سمیت 12 افراد جاں بحق

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ راشن کی تقسیم اور فلاحی کاموں کے لیے انتظامیہ کو باقاعدہ اطلاع دینی چاہیے — فوٹو: امتیاز علی
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ راشن کی تقسیم اور فلاحی کاموں کے لیے انتظامیہ کو باقاعدہ اطلاع دینی چاہیے — فوٹو: امتیاز علی

کراچی کے علاقے سائٹ میں انڈسٹریل ایریا میں واقع نجی کمپنی کی جانب سے ملازمین کے اہل خانہ میں زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے خواتین اور بچوں سمیت 12 افراد جاں بحق جبکہ پانچ زخمی ہو گئے۔

کیماڑی پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 5 افراد زخمی بھی ہوئے، مرنے والوں میں سے اکثریت کی عمریں 40 سے 50سال کے درمیان ہیں۔

اس سے قبل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے ڈان کو بتایا تھا کہ عباسی شہید ہسپتال میں اب تک نو لاشیں لائی جا چکی ہیں۔

ڈاکٹر سمیہ سید نے مزید کہا تھا کہ مرنے والوں میں دو نابالغ بچے اور سات خواتین شامل ہیں۔

کیماڑی کے ایس ایس پی فدا حسین جانوری نے ڈان کو بتایا کہ ایف کے ڈائنگ کمپنی نے اپنے ملازمین کے اہلخانہ کو سائٹ ایریا میں واقع کمپنی کے احاطے میں زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے مدعو کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہاں سینکڑوں خواتین آ گئیں اور ایک بڑی بھیڑ کے خوف سے کمپنی کے عملے نے دروازے بند کردیے جبکہ اندر لائن وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا جبکہ اس کے علاوہ مقامی پولیس کو بھی اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ گرمی اور بھگدڑ مچنے سے متعدد خواتین بے ہوش ہوگئیں اور واقعے کی اطلاع ملنے پر سائٹ ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور دیگر کی قیادت میں پولیس کی نفری موقع پر پہنچ گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ غفلت کے ارتکاب کے الزام میں کچھ ملازمین کو حراست میں لیا گیا ہے اور خواتین کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

سینئر افسر نے بتایا کہ فرم کے منیجر اور سپروازر سمیت تین ملازمین کو صدقہ کی تقسیم کے دوران مناسب انتظامات نہ کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مبینہ طور پر کمپنی کا مالک موجود نہیں تھا۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ 6 خواتین بھی بے ہوش ہوگئی ہیں جنہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ دو خواتین کی لاشیں سول ہسپتال کراچی بھیج دی گئیں۔

وزیراعلیٰ کا لواحقین کے لیے 5 لاکھ، ہر زخمی شخص کے لیے ایک لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیمنز چورنگی میں کمپنی میں بھگدڑ مچنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ راشن کی تقسیم اور فلاحی کاموں کے لیے انتظامیہ کو باقاعدہ اطلاع دینی چاہیے اور 9 افراد کے جاں بحق ہونے کی رپورٹ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کی زخمیوں کو فوری ہسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کی۔

وزیراعلیٰ سندھ متاثرین کے لیے مالی امداد کا اعلان کرتے ہوئے چیف سیکریٹری کو ہدایت دی کہ ضلعی انتظامیہ کے ذریعے جاں بحق اور زخمیوں کے کوائف فوری حاصل کیے جائیں، کوائف اکٹھے ہوتے ہی متاثرین میں اعلان کردہ امدادی رقم تقسیم کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے جاں بحق ہونے والے افراد کی فیملی کے لیے 5، 5 لاکھ روپے اور ہر زخمی شخص کے لیے ایک لاکھ روپے مالی امداد دینے کا اعلان کیا۔

وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ سندھ شرجیل انعام میمن نے واقعے کو افسوسناک قرار دیا، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیکٹری انتظامیہ نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو واقعہ کے بارے میں آگاہ نہیں کیا تھا۔

انہوں نے مخیر حضرات اور غیر سرکاری تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ ایسی سرگرمیاں کرنے سے قبل ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو مطلع کریں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ حکومت نے ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے کہا کہ کراچی میں راشن کی تقسیم گیارہ جانیں کے گئی، آٹے کی قطاروں میں 8 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، یہ ہماری معیشت کے حالات کا عملی نمونہ ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ مسند اقتدار پر بیٹھے لوگ صرف اپنی کرسی کی فکر میں لوگوں ظلم و بر ریت کے علاوہ کسی معاملے میں سنجیدہ نہیں۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی طرف سے آٹے کی تقسیم کے مراکز میں بھگدڑ کا باعث بننے والی بدانتظامی پر گہری تشویش ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں پیش آنے والے واقعے کو خاص طور پر تشویشناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال پاکستان کے پسماندہ لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کر رہی ہے جو اشرافیہ کی جانب سے جاری معاشی ناانصافی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

ملک بھر میں آٹے کی تقسیم کے مراکز پر ہزاروں لوگ جمع ہو رہےہیں جو مہنگائی کے اثرات سے پریشان ہیں جب کہ مہنگائی کی شرح 50 سال کی بلند ترین سطح یعنی 30 فیصد سے زیادہ ہے۔

مفت آٹے کی تقسیم کے دوران پاکستان کے دیگر صوبوں میں حالیہ ہفتوں میں کم از کم 5 دیگر افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس دوران ٹرکوں اور ڈسٹری بیوشن پوائنٹس سے آٹے کے ہزاروں تھیلے بھی لوٹ لیے گئے۔

حالیہ برسوں کے دوران ملک میں بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ گزشتہ سال میں آٹے کی قیمتوں میں 45 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں