الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں غیر متوقع موڑ اس وقت آیا جب گزشتہ دو روز کے دوران 2 ججوں نے بینچ سے خود کو الگ کر لیا جس کے نتیجے میں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے فل کورٹ بنانے کے مطالبات سامنے آنے لگے۔

پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی جب کہ گزشتہ روز جسٹس امین الدین خان نے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

حکومتی اہلکار فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل ضروری ہے جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ فل کورٹ ہی واحد راستہ ہے۔

لیکن کیا یہ واقعی واحد راستہ ہے؟

ڈان ڈاٹ کام نے اس معاملے پر رائے جاننے کے لیے قانونی ماہرین سے رابطہ کیا۔

’آئینی طور پر سادہ معاملہ‘

بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ ’انتخابات تاخیر کیس میں فل کورٹ کے قیام کی ضرورت نہیں، انہوں نے ڈان ٹی وی کو بتایا کہ‘اگر کوئی پیچیدہ آئینی معاملہ ہو تو فل کورٹ کے قیام کے لیے بات چیت کی جا سکتی ہے لیکن اس معاملے میں نہیں۔’

انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ چیز پہلے ہی واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں، اس مسئلے پر بحث کو غیر ضروری طور پر طول دیا جارہا ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک جج (جسٹس جمال خان مندوخیل) کا تعلق ہے جنہوں نے کہا کہ وہ بینچ میں ’مس فٹ‘ ہیں تو یہ ان کا ذاتی نقطہ نظر ہے اور چونکہ انہوں نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، اس لیے امید ہے کہ پاکستان استحکام کی طرف بڑھے گا اور عدلیہ اس پر جلد ہی فیصلہ دے گی۔

انہوں نے کہا یہ چیف جسٹس کا استحقاق ہے کہ وہ جو مناسب سمجھیں وہ بینچ تشکیل دیں، کوئی درخواست گزار یا کوئی سرکاری وکیل اس کو روک نہیں سکتا۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں چیف جسٹس کو ’ماسٹر آف دی روسٹر‘ کہا گیا جو ان کے بقول چیف جسٹس کے اختیارات کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔

اسد رحیم نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل مشکل لگتی ہے جب کہ 6 جج پہلے ہی کہہ چکے کہ یہاں ازخود نوٹس کی ضرورت نہیں جب کہ 2 دیگر ججز نے کہا کہ قوانین بننے تک کیس کو موخر کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر 6 جج پہلے ہی اپنی رائے بتا چکے تو مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ فل کورٹ بینچ کی جانب کیوں جا رہے ہیں‘۔

بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ صرف پیچیدہ آئینی معاملات میں ہی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے بات چیت ہونی چاہیے لیکن اس معاملے میں نہیں۔

’فل کورٹ کی تشکیل صرف کارروائی میں تاخیر کا باعث بنے گی‘

بیرسٹر ردا حسین بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتی تھیں، انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں بہت واضح تقسیم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جب کہ چیف جسٹس آئینی کیس کی سماعت کر رہے ہیں جو ہماری جمہوریت کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا، ان پر ون مین شو چلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے، ججز اپنے فیصلوں کے ذریعے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس پوزیشن میں میرٹ ہے کہ فل کورٹ کے فیصلوں کو زیادہ اخلاقی اختیار حاصل ہو گا تاہم، اس معاملے میں اس کی تشکیل صرف کارروائی میں مزید تاخیر کا باعث بنے گی جس کے نتیجے میں انتخابات کی تاریخ میں تاخیر ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’عدالت کے سامنے زیر سماعت کیس سادہ ہے جسے بلاوجہ متنازع بنایا جا رہا ہے، عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کر کے 8 اکتوبر کر سکتا ہے، آئین اس معاملے پر واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف فل کورٹ کا فیصلہ ہی قابل قبول ہوگا، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی قبولیت کو فل کورٹ کی تشکیل سے مشروط نہیں کیا جا سکتا، فریقین عدالت کے فیصلوں کے پابند ہیں چاہے وہ ان فیصلوں کو وہ پسند کریں یا نہ کریں۔

ان کا مزید کہنا کہ اس معاملے میں آئین کی روح کے مطابق اس پر عمل کرنے میں ہی دانش مندی مضمر ہے۔

دیگر قانونی ماہرین کا نظریہ مختلف تھا، قانون دان صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں فل کورٹ کی تشکیل پہلے دن سے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کا فیصلہ ہی اخلاقی اور عوامی جواز فراہم کرے گا جو کہ نہ صرف اس تنازع کو حتمی طور پر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ عدالتی احکامات کے حتمی نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے متعدد درخواستوں کے باوجود تحریک عدم اعتماد کیس، 63- اے کیس، حمزہ شہباز/پرویز الٰہی کیس اور نہ ہی اس الیکشن کیس کے پہلے مرحلے میں فل کورٹ تشکیل دیا گیا، اس کے بجائے ان تمام مقدمات کے لیے ہر بار تقریباً ان ہی ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیے گئے جس نے ہمیں اس افسوسناک نہج تک پہنچا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسے انتشار زدہ ماحول میں سپریم کورٹ اس بنیادی اصول سے صرف نظر نہیں کر سکتا کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔‘

جہاں تک عدالت عظمیٰ میں نظر آنے والی تقسیم ہے جو کہ معاملے کی سماعت کو مشکل بنا رہی ہے، انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر ججوں کے لیے یہ ناممکن نہیں ہے کہ وہ کیس چلانے کے لیے ضابطہ اخلاق پر اتفاق کریں جس کے تحت تمام فریقین کم سے کم وقت میں اپنا کیس پیش کریں۔

’نتخابات میں تاخیر کیس کی سماعت فل کورٹ سے کم نہیں ہونی چاہیے‘

وکیل عبدالمعیز جعفری نے بھی رائے دی کہ ’’انتخابات میں تاخیر کیس کی سماعت فل کورٹ سے کم نہیں ہونی چاہیے‘۔

وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندر سارا تنازع ججوں کے درمیان اس ٹیکنیکل اختلافات پر مبنی ہے کہ کیا یہ سوموٹو لیا جانا چاہئے تھا اور جس طریقے سے یہ سوموٹو لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر حساس کیسز کی سماعت کے لیے بینچ بنانے میں چیف جسٹس کی مخصوص ججوں کی ترجیحات سنگین تنازع بن گیا ہے جب کہ دیگر سینئر ججوں کی اس میں شمولیت پر غور نہیں کیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج نے اختلاف نہیں کیا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے 90 روز کی ڈیڈ لائن کے بارے میں آئین واضح ہے۔

معیز جعفری نے کہا کہ اس سارے معاملے کے بارے میں سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ یہ معاملہ انتظامی اختلافات سے جڑا ہوا ہے اور پوری سپریم کورٹ کے تاثر کو داغدار کر رہا ہے، سیاسی ڈیزائن کے مطابق ججوں کی ساکھ پر عوامی سطح پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کو چلانے کے طریقے میں جمہوریت اور شفافیت لاتے تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

وکیل اور کالم نگار حسان اے نیازی نے دلیل دی کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس اندرونی تنازع کو حل کرنے اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے فل کورٹ معاملے کی سماعت کرے۔

وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر فل کورٹ سماعت سے مزید متعدد مسائل بھی حل ہوں گے جنہوں نے انتخابات تاریخ کیس کی سماعت کو متنازع بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل ان تمام الزامات کو ختم کردی گی کہ چیف جسٹس جان بوجھ کر ان ججوں کو بینچوں سے خارج کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں، اگر سپریم کورٹ کے تمام ججوں نے واضح طور پر کہا کہ آئین نے 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے تو یہ ایک ایسی مثال قائم کرے گا جو آج یا مستقبل میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے کو حتمی طور پر حل کردے گا۔

وکیل اور کالم نگار باسل نبی ملک نے کہا کہ مسئلہ ساکھ کا ہے، انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ہم جس بحران میں ہیں، اس کے بارے میں ہم کئی روز تک بات کر سکتے ہیں لیکن واضح طور پر سپریم کورٹ کو درپیش مسائل میں سے قانونی مسائل سب سے کم ہیں۔

باسل ملک نے عدالتی تقسیم کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی فل کورٹ سماعت سے اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہو گی لیکن یقینی طور پر اس سے سامنے آنے فیصلے کی ساکھ یقینی ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ جتنے زیادہ ججز ہوں وہ بہتر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ججوں کی زیادہ تعداد اجتماعی دانش حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے، اس طرح کی درخواست کو منظور کرنے کے لیے صرف یہ بات ہی کافی ہونی چاہیے تھی۔

حافظ قرآن کیس کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں اور ججوں کی بینچ سے علیحدگی کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ فل کورٹ کا امکان نہیں ہے اور اب کسی حد تک ناممکن ہے، یہ بدقسمتی ہے جس سے مکمل طور پر گریز کیا جا سکتا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں