ہمیں بینچ ہی قبول نہیں تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہوگا، نواز شریف

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف لندن میں پریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف لندن میں پریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے التوا کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہی بینچوں کے فیصلوں نے تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے، ایسے فیصلے نہیں ہونے دینے چاہئیں جو ملک و قوم کو تباہ کردے، ہمیں بینچ ہی قبول نہیں ہے تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہو گا۔

مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قوم سے کہوں گا کہ آنکھیں کھولو، آپ کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہو رہا ہے، 2017 میں سب لوگ خوش تھے، پیٹ بھر کر روٹی ملتی تھی اور لوگ خوشی کے ساتھ گزارا کرتے تھے۔

انہوں نے 2017 میں ڈالر اور بقیہ اشیا کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں ملک میں موٹر وے بن رہے تھے، دہشت گردی ختم ہو چکی تھی، لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی تھی، زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر تھے لیکن 2017 کے بعد ایک ایک ارب ڈالر کے لیے پاکستان کو اپنے دوستوں کے پاس درخواست کرنی پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ مجھے 2017 کا تسلسل لگ رہا ہے، انہوں نے پاکستان کے ساتھ گھناؤنا مذاق کیا ہے اور انہی بینچوں کے فیصلوں نے تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے اور وہی تین ججز جو اس وقت نواز شریف کو نااہل کرنے میں شامل تھے، ان میں سے تین یہی تھے کیونکہ بقیہ تو ریٹائر ہو گئے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت ہم نے آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا تھا اور ہم خواب دیکھ رہے تھے کہ پاکستان دنیا کے 10 سے 20 سب سے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا لیکن آج کے فیصلے پتا نہیں اس ملک کو کہاں لے کر جائیں گے، پتا نہیں یہ کیا کرنے جا رہے ہیں، اگر یہ فیصلہ خوانخواستہ آیا تو ڈالر 500روپے ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ایک بندے کی خاطر سیاست ہو رہی ہے اور ایک بندے کی خاطر اس طرح کے فیصلے سنائے جاتے ہیں، ابھی سابق آرمی چیف جنرل باجوہ جو باتیں کررہے ہیں کیا اس پر سوموٹو نہیں بنتا کہ نواز شریف کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی اور غلط فیصلہ سنایا گیا تھا لیکن اس کا کوئی سوموٹو نہیں لیتا اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے جا رہے ہیں، قوم پر فیصلے مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن قومی عہد کر لے کہ ایسے فیصلے نہیں ہونے دینا جو ملک و قوم کو تباہ کردے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب بینچ ہی قبول نہیں ہے تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہو گا اور قبول ہونا بھی نہیں چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ ایک بینچ جس پر سب کو اعتراضات ہیں اور اور یہ ڈیمانڈ کی جا رہی ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے جس کا فیصلہ سب کو قبول ہو گا، اگر فل کورٹ نہیں بنتا تو تین کے بینچ میں کیا مصلحت ہے اور کیا عوامل کارفرما ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فل کورٹ پر ہمیں بھی پورا اعتماد ہے لیکن یہ وہ جج ہیں جن میں سے دو وہ ہیں جنہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلے دیے اور پیچھے ہر فیصلہ ہمارے خلاف ہی آتا جا رہا ہے لیکن وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تین ججوں والے فیصلے پر پوری قوم کا عدم اعتماد ہے، صرف ایک شخص کا نہیں ہے اور اس کا نام عمران خان ہے، کیا عمران خان کے لیے ہم نے سارے فیصلے کرنے ہیں، عمران خان کی خاطر ہم نے سارے بینچ بنانے ہیں۔

ایک اورسوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے کہ سماعت کے دوران چیف جسٹس کی آنکھوں میں آنسو آئے ہیں، اگر آنسو اللہ کے ڈر سے آئے ہیں تو پھر بہت اچھی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس تو سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا چاہیے، انہوں نے جو کہا ہے اور ان کے بارے میں جو شواہد آئے ہیں اس کی پوری آڈیو لیکس بھی ہیں، ویڈیو لیکس بھی نہیں، میرے خیال میں یہ احتساب کے حوالے سے فٹ کیس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہمارے جج شوکت صدیقی ہیں انہوں نے جو کہا ہے کم از کم اس کی تو تحقیقات کرا لیتے، ان کو نکال کر باہر کردیا کیونکہ وہ ثاقب نثار کے مزاج کے خلاف بات کررہے تھے لیکن وہ بات سچ تھی، ان کو انصاف دینے کے بجائے انہیں سرے سے ہی فارغ کردیا، جہاں انصاف کا یہ معیار ہو تو پھر نظام انصاف کا خدا ہی حافظ ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے قائد نے کہا کہ آپ نے ثاقب نثار صاحب کی آڈیو لیکس سنی ہو گی، وہ ان کے بارے میں میرے جواب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، سن لیں تو آپ کو پتا چل جائے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ثاقب نثار صاحب کی وہ بھی آڈیو لیکس ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف اور مریم کو سزا دینی ہے اور عمران خان کو لانا ہے، وہ جب چیف جسٹس تھے تو انہوں نے یہ بات کہی، اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بل کے حوالے سے قانون نے اپنی رائے کا اظہار کردیا ہے، پارلیمنٹ نے بل پاس کردیا ہے اور سینیٹ سے مںظوری کے بعد صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے چلا گیا ہے، اس بات کا بھی تو احساس کیا جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب سب کی ایک متفقہ آواز ہے تو پھر ضد کیوں ہے، کیوں اصرار کیا جا رہا ہے کہ یہ تین ججز ہی بینچ میں رہیں گے، یہ قومی مسئلہ ہے، یہ کوئی ٹرک یا ریڑھی والے کا مسئلہ نہیں ہے اور سپریم کورٹ میں بہت سارے جج صاحبان ہیں تو صرف یہ تین کیوں، ہر کیس میں یہی تین ججز سامنے آ جاتے ہیں اور پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں