سپریم کورٹ میں حالیہ تقسیم اور 1997 کے عدالتی بحران میں مماثلت پر قانونی ماہرین کی رائے

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2023
سیاسی پولرائزیشن کی موجودہ صورتحال کے سبب ججز کے درمیان اختلاف کا مسئلہ بڑھ گیا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
سیاسی پولرائزیشن کی موجودہ صورتحال کے سبب ججز کے درمیان اختلاف کا مسئلہ بڑھ گیا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

حالیہ چند روز کے دوران سپریم کورٹ میں تقسیم اور 1997 میں پیدا ہونے والے اس بحران کے درمیان کئی مماثلتیں دکھائی دیتی ہیں جوکہ جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور نواز شریف حکومت کے درمیان تصادم کے بعد پیدا ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں واقعات میں حیرت انگیز مماثلتوں کے پیش نظر مبصرین اور قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اہم قومی اداروں کے سربراہان کی جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ملک میں سیاسی پولرائزیشن کی موجودہ صورت حال کے سبب یہ بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔

1997 میں اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصل آباد میں واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی (واسا) کے کچھ اہلکاروں کو ہتھکڑیاں لگانے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے نفاذ سے اختلافات مزید گہرے ہو گئے ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے اس قانون کے نفاذ کی سختی سے مخالفت کی تھی۔

بعدازاں جسٹس سجاد علی شاہ نے 13ویں ترمیم کو سماعت کے بغیر معطل کر کے پارلیمنٹ کے استحقاق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو بحال کر دیا تھا۔

وہ پہلے ہی محض ایک سال قبل بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے فیصلے کی توثیق کرنے پر پیپلزپارٹی کے نشانے پر تھے حالانکہ بےنظیر بھٹو نے انہیں ملک کے اعلیٰ ترین جج کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے 2 سینیئر ججوں کو ’بائے پاس‘ کر دیا تھا۔

اس سب کو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی قانونی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ عدلیہ میں موجودہ تقسیم کی بنیادی وجوہات میں جمہوری اصولوں کی عدم موجودگی، مشاورت کے فقدان اور عدالتی تقرریوں میں سینیارٹی کے اصول کو نظرانداز کردینے جیسے عوامل شامل ہیں۔

تمام اہم معاملات پر سینیئر ججوں سے مشورے کی روایت سے ہٹ جانے کی وجہ سے اُس وقت اور آج بھی ججز معترض ہیں، درحقیقت اہم آئینی اور سیاسی مقدمات کی سماعت کے لیے بنائے گئے بینچوں سے باہر رکھا جانا ہی سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے درمیان تنازع کی جڑ ہے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور 2007 کی وکلا تحریک کی اہم شخصیات میں سے ایک منیر اے ملک نے بتایا کہ ’اگرچہ ججز کی صفوں میں اختلاف رائے کافی عرصے سے موجود تھا لیکن سیاسی پولرائزیشن کی موجودہ صورتحال کے سبب یہ مسئلہ بڑھ گیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آج پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کیس پر اپنا فیصلہ سنائے گا، منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ ’اس حکم پر عمل درآمد ایک مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ حکومت اس موجودہ بینچ کے حکم کی پاسداری کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں عدالتی بحرانوں میں ایک بڑی مماثلت یہ ہے کہ شریف خاندان اور ان سے جڑی قانونی چارہ جوئی دونوں تنازعات کا مرکز تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم عدالتی حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کرتا ہے تو عدالت عظمیٰ وزیر اعظم کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے، مثلاً سابق صدر آصف علی زرداری کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے حکم سے انکار پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مرتکب قرار پائے۔

منیر اے ملک نے تجویز دی کہ چیف جسٹس ججوں کے درمیان ہم آہنگی بحال کرنے اور ادارے کو اندرونی تقسیم سے بچانے کے لیے فل کورٹ میٹنگز کریں اور ان اختلافات کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات سے مزید سختی سے نمٹیں۔

موجودہ اور 1997 کے واقعات میں ایک اور مماثلت فیصلوں کے ذریعے اختلافات کا اظہار کرنا اور انتظامی سرکلر کے ذریعے عدالتی احکامات کو کالعدم قرار دینا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تازہ خط کے تناظر میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہٹائے جانے سے معاملات مزید کشیدہ اور پیچیدہ ہوں گے۔

سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن صلاح الدین احمد نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی خدمات اچانک واپس لینا چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ناگوار گزر سکتا ہے اور وہ اس کا نوٹس بھی لے سکتے ہیں۔

صلاح الدین احمد نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط میں کوئی غیر قانونی بات دکھائی نہیں دیتی، تاہم ان کی بھی یہی رائے ہے کہ عدلیہ کے اندر پیدا ہونے والا حالیہ تنازع تیزی سے 1997 جیسی صورتحال کی جانب بڑھ رہا ہے۔

صلاح الدین احمد کا خیال ہے کہ ججوں کے درمیان اختلافات کے عوامل بیرونی نہیں اندرونی ہیں، ان عوامل میں بینچوں کی تشکیل میں غیر شفافیت، از خود نوٹس کے اختیارات کا بےتحاشہ استعمال اور غیر منظم عدالتی تعیناتیاں اور ترقیاں شامل ہیں۔

لیکن دوسری جانب اسلام آباد میں مقیم ایڈووکیٹ عمر گیلانی کا خیال ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور سے یکے بعد دیگرے تمام چیف جسٹس اپنے ہم خیال ججوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کی مدد سے ماورائے آئین قوتوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دی گئی قربانیوں کی وجہ سے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے اب کھلے عام اس سب کے خلاف بغاوت کر دی ہے، ان سب کا کوئی سیاسی مفاد نہیں ہے بلکہ وہ طاقت کے کھیل میں عدلیہ کی غیر جانبداری کو بحال کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں‘۔

ایڈووکیٹ عمر گیلانی نے مزید کہا کہ ’اس تناظر میں دیکھا جائے تو ججوں کے درمیان موجودہ تقسیم 1997 کے واقعات سے بالکل مختلف نظر آتی ہے جب بینچ کو تقسیم کرنے کے لیے سیاسی دباؤ کا استعمال کیا گیا تھا‘۔

دونوں ادوار میں مماثلت کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایڈووکیٹ اسامہ خاور نے کہا کہ اس بار ایک سینیئر جج کے خلاف ناقص بنیادوں پر چلنے والے مقدمے نے سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان پیدا ہونے والی تقسیم مزید گہری کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں تھی جبکہ آج ایک مقبول سیاسی جماعت، پی ڈی ایم حکومت سے دشمنی کی وجہ سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پیچھے کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس اتنے تنہا نہیں ہیں جتنے سجاد علی شاہ تھے کیونکہ جسٹس عمر عطا بندیال کو کم از کم 2 مستقبل کے چیف جسٹسز کی حمایت حاصل ہے۔

تاہم دراڑیں پیدا ہونے کے باوجود اس نے سپریم کورٹ کو ابھی تک 1997 کی طرح 2 متوازی گروپوں میں تقسیم نہیں کیا ہے جب جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے 5 رکنی بینچ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی کی جانب سے 10 رکنی بینچ پر مشتمل 2 علیحدہ علیحدہ کاز لسٹیں جاری کی گئی تھیں اور دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کے فیصلوں کے خلاف عدالتی اور انتظامی احکامات بھی جاری کیے تھے۔

ایڈووکیٹ اسامہ خاور نے کہا کہ کہ پارلیمنٹ کو بحران پر قابو پانے کے لیے قانون کو پامال کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور عدلیہ کو پارلیمنٹ کی حکمت کا احترام کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں