جائیداد کی قدر کوآمدنی سمجھنا ’وفاقی دائرہ اختیار سے باہر‘ ہے، لاہور ہائیکورٹ

07 اپريل 2023
فیصلے میں غیر منقولہ جائیداد پر انکم ٹیکس لگانے کی وفاقی مقننہ کی اہلیت کا جائزہ لیا گیا — لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
فیصلے میں غیر منقولہ جائیداد پر انکم ٹیکس لگانے کی وفاقی مقننہ کی اہلیت کا جائزہ لیا گیا — لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن ای-7 کے تحت غیر منقولہ جائیدادوں سے متوقع آمدن پر ٹیکس کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے، یعنی یہ دائرہ کار سے متجاوز اور اختیار سے باہر ہے۔

فیصلے میں قرار دیا گیا کہ غیر منقولہ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کو آمدنی سمجھنا وفاقی مقننہ کی اہلیت سے باہر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 50 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس شاہد جمیل خان نے یہ بھی قرار دیا کہ آرڈیننس کے تحت بعض افراد کو، مثال کے طور پر شہدا اور ان کے زیر کفالت افراد اور سابق فوجیوں کو چھوڑنا امتیازی سلوک ہے اور آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور قانون کے مساوی تحفظ کے حقدار ہیں۔

فیصلے میں غیر منقولہ جائیداد پر انکم ٹیکس لگانے کی وفاقی مقننہ کی اہلیت کا جائزہ لیا گیا۔

فیصلے میں جسٹس شاہد جمیل خان نے ٹیکس دہندگان کی ایک ہزار سے زائد درخواستوں کو منظور کیا جس میں وفاقی حکومت کی ٹیکس عائد کرنے کی قانون سازی کی اہلیت اور سیکشن 7 ای کے قوانین کو چیلنج کیا گیا تھا۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ مقننہ کی جانب سے سیاسی، اقتصادی اور سماجی عوامل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاہدوں اور معاہدوں سے متاثر ہو کر تمام قسم کے ٹیکس لگانے کے واقعات یا حالات، براہ راست یا بالواسطہ، قانون سازی کا فیصلہ کیا جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی شخص یا جائیداد پر ٹیکس عام طور پر براہ راست ٹیکس ہوتا ہے اور لین دین پر ٹیکس بالواسطہ ہوتا ہے،چونکہ یہ لین دین کے ساتھ جاتا ہے اور جہاں لین دین ختم ہوتا ہے وہاں لاگو ہوتا ہے۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ ٹیکس کا ریاست کا اختیار قانون سازی کی صوابدید کے ذریعے استعمال ہونے والی خودمختاری کا حصہ ہے، جسے سخت یا غیر معقول ہونے کی بنیاد پر کم نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا یا کہ چونکہ وفاقی مقننہ ٹیکس لگانے کے لیے جائیداد رکھنے یا کنٹرول کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنے کی مجاز ہے اس لیے اس کے پاس ناجائز اثاثوں کو کنٹرول کرنے اور اس پر قابو پانے کی بھی واضح طاقت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’غیر شفاف ذرائع سے دولت جمع کرنے کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے اور دیگر متعلقہ قوانین کی متعلقہ دفعات میں ترامیم کے ساتھ ٹیکس کی دفعات کے ذریعے مجرمانہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘

جسٹ جمیل شاہد خان نے کہا کہ آرڈیننس کے سیکشن 7 ای (2)(d) کی شق (i)، (iii) اور (iv)کے تحت لوگوں کو چھوڑنا امتیازی سلوک ہے۔

اس شق میں پاکستان کی مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے شہید یا شہید کے زیر کفالت افراد، مسلح افواج یا وفاقی یا صوبائی حکومت کی سروس کے دوران مرنے والا شخص یا اس کے زیر کفالت افراد، دورانِ جنگ زخمی ہونے والے شخص ، سابق فوجی اور مسلح افواج کے حاضر سروس اہلکار یا سابق ملازمین یا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حاضر سروس اہلکار، جو کہ الاٹمنٹ اتھارٹی کے ذریعے مستند کیپٹل اثاثے کے اصل الاٹی ہیں، انہیں استثنیٰ دیا گیا ہے۔

جج نے فیصلہ دیا کہ یہ شق ان لوگوں کے لیے انتہائی امتیازی ہے جو اپنی بچت سے جائیداد خریدتے ہیں لیکن انہیں ان کی سروس کے دوران کبھی بھی غیر منقولہ جائیداد سمیت کوئی اثاثہ الاٹ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بعض افراد کو چھوڑ کر، مقننہ نے ان افراد کو نظر انداز کیا، جنہیں غیر منقولہ جائیداد وراثت میں ملی لیکن وہ کیپٹل ویلیو ٹیکس ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، خاص طور پر جب ٹیکس فرد پر ہو نہ کہ جائیداد پر۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں