حکومت کا چیف جسٹس پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 07 اپريل 2023
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اسلام آباد میں پریس کانفرنس  کررہی تھیں — فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کررہی تھیں — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نےانتخابات از خود نوٹس کے فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔

مریم اورنگزیب نے اپنی پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے کیس میں اپنا 25صحفات پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کو 3-4 کے تناسب سے مسترد کیا گیا۔

مریم اورنگزیب نےسابق وزیراعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں درخواست گزار سائفر والا تھا، جھوٹی عالمی سازش والا تھا، ملک کے خلاف سازش کرنے والا تھا، فارن ایجٹ اور گھڑی چور تھا، پہلے اس نے لانگ مارچ کا تماشہ لگایا، پھر جیل بھرو تحریک کا تماشہ لگایا، پھر عدالت سے بچنے کے لیے یہ الیکشن کا ڈرامہ لگایا، اسمبلیاں تحلیل کیں، اس کی سہولت کاری شروع ہوگئی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک مسترد شدہ درخواست کے اوپر چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ بنایا، جب کوئی پٹیشن ہی نہیں تھی تو پھر سماعت کس چیز کی تھی، جب پٹیشن مسترد ہوگئی ہے تو پھر اس کے اوپر بینچ کیوں بنا، فیصلہ کیسے آیا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مؤقف اپنایا کہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، اس کو مسترد کرنے والے ججوں نے بھی کہا کہ اس پر فل کورٹ بنادیں تاکہ عوام کا اعتماد کورٹ پر بحال ہو، آئینی سوالات اٹھ رہے ہیں، اس لیے فل کورٹ بنادیں تاکہ عوام اس فیصلے کو تسلیم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے نہیں بھاگتیں لیکن الیکشن کے وہ فیصلے جو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لیے مسلط کرائے جائیں، وہ نا قابل قبول ہیں، یہ الیکشن کا معاملہ نہیں رہا، یہ اب اس بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے، اس عدالتی سہولت کار کا معاملہ ہے جس پر آج جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ عدالتی کارروائی جو کسی سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہو، اس کی اجازت نہیں ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس کے دو پہلو ہیں، جب عدالتی پہلو سیاست پر اثر انداز ہو، جب عدالتی کارروائی متنازع ہوجائے، سپریم کورٹ کا اپنا اکثریتی بینچ اس کو نہ مانے، اس فیصلے کو عوام کیسے مانیں، کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ وہ فیصلہ آئین کے مطابق صاف و شفاف ہے؟

انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ پہلے ہی مسترد شدہ درخواست تھی، اس پر بینچ نہیں بن سکتا تھا، اس کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پھر سوال یہ اٹھتے ہیں کہ عدالتی سہولت کاری کیوں، کیوں جھوٹ بولا گیا کہ ججز نے اپنے آپ کو کیس سے علیحدہ کرلیا، کیوں اس جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے 3 ججز کا متنازع بینچ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آج عمرانداری پر آئین کی فتح ہوئی ہے، سچ بولنے والے ججز نے اپنی ججمنٹ اور کورٹ آڈر کے ذریعے اس سہولت کاری کو بے نقاب کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو پٹیشن خارج ہوچکی تھی چیف جسٹس صاحب آپ نے اس پر بینچ کیسے بنایا؟ اطہر من اللہ صاحب کا فیصلہ اس بات کی توثیق کرتا ہے جو پارلیمان کہہ رہی تھی، 12 سیاسی جماعتوں کو نہیں سنا گیا، ان کے وکلا کی حاضری تک نہیں لگائی گئی۔

وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ سی سی پی او لاہور ڈوگر صاحب کے ٹرانسفر کے کیس کے اندر سے 90 دن الیکشن کا از خود نوٹس نکل آتا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں 90 دن میں الیکشن کا اصول معطل جبکہ پنجاب میں وہ اصول پورا کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا چار ججز کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس کی اپنی پوزیشن متنازع ہوگئی ہے، ان کو مستعفی ہونا چاہیے، اس معاملے پر کسی کو آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ملک کی پارلیمنٹ میں اس کا فیصلہ ہوچکا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آئینی اداروں سے بحران جنم لیتا ہے تو پھر ملک میں اسی طرح سے معاشی تباہی اور مہنگائی ہوتی ہے، صرف سیاست دان ملک ٹھیک نہیں کرتے، ملک ریاست ٹھیک کرتی ہے، جب سیاست دان ٹھیک کر رہا ہوتا ہے تو پھر اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے، بعد میں سوال سیاستدانوں سے سوال کیا جاتا ہے، پاکستان کے عوام سب جانتے ہیں، یہ تماشہ ختم ہونا چاہیے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں الیکشن ضرور ہونے چاہییں لیکن کسی کی مرضی، دھونس، دھمکی کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کے مطابق پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہونے چاہییں۔

پی ٹی آئی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا چیف جسٹس مزید تباہی کرنے کے بجائے مستعفی ہو جائے، نواز شریف

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ عدالتیں قوموں کو بحرانوں سے نکالتی نہ کہ بحرانوں میں دھکیلتی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں نواز شریف نے سوال اٹھایا کہ کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے نہ جانے کونسا اختیار استعمال کر کے اکثریتی فیصلے پر اقلیتی رائے مسلط کردی۔

قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اپنے منصب اور آئین کی توہین کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا چیف جسٹس مزید تباہی کرنے کے بجائے فی الفور مستعفی ہو جائے۔

مریم نواز کا بھی چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز نے بھی چیف جسٹس پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حمایت کے لیے قانون اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ اختیارات کے اس صریح غلط استعمال نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا، معزز ججز نے چیف جسٹس کے طرز عمل اور جانبداری پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کبھی کسی چیف جسٹس پر اس طرح کے مس کنڈکٹ کے الزامات نہیں لگے، ان کا پی ٹی آئی کی طرف جھکاؤ واضح ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں