جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر

12 اپريل 2023
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے صدر پرویز عابد ہرل نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے ایک شکایت درج کرائی ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مبینہ طور پر ’پاکستان کے بدعنوان، منی لانڈرر اور ٹیکس چور مافیا کے اڈے‘ کا دورہ کر کے سنگین بدانتظامی کا ارتکاب کرنے پر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پٹیشن میں ’بدعنوان، منی لانڈرر اور ٹیکس چور مافیا کے اڈے کے الفاظ بلا واسطہ طور پر پارلیمان کے لیے استعمال کیے گئے اور کہا گیا کہ جج نے 10 اپریل کو سیاسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے عدلیہ کی مذمت کے لیے اپنے متعصبانہ خیالات کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف 8 جولائی 2021 کو گزشتہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دائر کردہ کیوریٹو نظرثانی کی درخواست پہلے ہی چیف جسٹس کے سامنے زیر التوا ہے۔

حالیہ شکایت میں گوجرانوالہ بار کے صدر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو آرٹیکل 209 کے تحت کیونکہ مبینہ طور پر ’عدلیہ کی بطور ادارہ مذمت کرنے‘ اور اپنے انتہائی نجی اور غیر معروضی خیالات کا اظہار کرنے کے لیے سیاسی فورم کا انتخاب کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کے ذریعے ہٹانے کی درخواست کی جاتی ہے۔

پی ٹی آئی میڈیا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ ریاستی اداروں اور شخصیات کے حوالے سے مختلف خطوط لکھتے رہے اور میڈیا کو جاری کرتے رہے۔

شکایت میں الزام لگایا گیا کہ جج نے اپنے ذاتی اور موضوعی خیالات اور آرا پیش کرنے کے لیے ایک عوامی فورم کا انتخاب کرکے سنگین مس کنڈکٹ کیا ہے۔

شکایت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عدلیہ ریاست کا ایک اہم جزو ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا تصور ایک مصیبت زدہ اور پریشان شخص کے لیے آخری سہارا ہے، اس طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ مقصد غیر جانبدار ثالث کے طور پر کام کرنا ہے۔

شکایت گزار کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو ایک غیر جانبدار ایمپائر کے طور پر کام کرنا ہوتا ہے جو ریاست کے دیگر اداروں کے اختیارات اور دائرہ اختیار کے استعمال پر نظر رکھتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شہریوں/افراد کے حقوق متاثر نہ ہوں اور آئین کی خلاف ورزی اور پامال نہ ہوں۔

واضح رہے کہ 10 اپریل کو دستورِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی ہال میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی شرکت کر کے اظہار خیال کیا تھا تاہم اس تقریر پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

جس کے بعد گزشتہ روز جاری کردہ وضاحتی بیان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے دعوت دی گئی تھی۔

یہ دعوت قبول کرنے سے قبل معلومات حاصل کی گئی تھیں کہ کیا سیاسی تقریریں کی جائیں گی اور یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں کہ صرف آئین اور اس کے بنانے کے متعلق بات کی جائے گی جبکہ مجھے بھیجے گئے پروگرام میں اس کی تصدیق بھی کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ تقریر کریں گے اور میں نے معذرت کر لی تھی لیکن جب بعض تقریروں میں سیاسی بیانات دیے گئے تو پھر میں نے بات کرنے کے لیے درخواست کی تاکہ کسی ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہو سکے اور پھر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ امر باعث حیرت ہے کہ بعض لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے میں کہاں بیٹھا تھا یا میں نے آئین کی یاد منانے کے لیے تقریب میں شرکت کیوں کی تھی، میں ہال کے ایک کونے میں یا گیلری میں بیٹھنے کو ترجیح دیتا لیکن عدلیہ کے ایک فرد کی عزت افزائی کے لیے مجھے درمیان میں بٹھایا گیا، میں نے بیٹھنے کے لیے خود وہ جگہ نہیں چنی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں