خام مال کی درآمد پر پابندی سے صنعتی بےروزگاری ہوگی، صدر اوورسیز چیمبر

12 اپريل 2023
عامر پراچا نے کہا کہ خام مال نہیں ہوگا تو پیداوار کیسے ہوگی—فائل/فوٹو: ڈان
عامر پراچا نے کہا کہ خام مال نہیں ہوگا تو پیداوار کیسے ہوگی—فائل/فوٹو: ڈان

اوورسیز انوسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے صدر عامر پراچا نے خبردار کیا ہے کہ خام مال کی درآمد پر پابندی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر صنعتی بے روزگاری کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق او آئی سی سی آئی کے ہیڈ آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے 35 ممالک کی 200 سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں اور 14 شعبوں کے نمائندے عامر پراچا نے کہا کہ پاکستان میں کام کرنے والے اکثر غیرملکیوں کے لیے کاروبار داؤ پر لگا ہوا ہے۔

یونی لیور پاکستان لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) عامر پراچا نے کہا کہ بینک لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے سے انکار کر رہے ہیں یا صرف معمولی رقم کے لیے کھول رہے ہیں، جب خام مال نہیں ہوگا تو پیداوار کیسے ہوگی۔

پاکستان اس وقت عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول کے لیے کوششیں کر رہا ہے جبکہ ڈالر کی کمی کے باعث حکومت مختلف قسم کی درآمدات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

درآمدات میں پابندی سے ملک کے مختلف شعبوں کی پیداوار پر فرق پڑا ہے اور صنعتوں کو درکار خام مال کی قلت کی شکایات بھی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق درآمدات میں پابندی سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈالر کے اخراج پر پابندی کی وجہ سے اپنے بیرون ملک مراکز میں منافع منتقل نہیں کر پا رہی ہیں کیونکہ ہے۔

ایک سوال پر عامر پراچا نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ زیرالتوا منتقلی کی مقدار 1.5 ارب ڈالر ہے۔

او آئی سی سی ائی کے سیکریٹری جنرل ایم عبدالعلیم کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چیمبر کو بتایا کہ ان کے بیرون ملک ہیڈکوارٹرز چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کے تمام پروگرام فی لوقت روک دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اراکین نے بتایا ان کے پاس رول آؤٹ کے لیے 2 ارب ڈالر مالیت کے منصوبے ہیں لیکن وہ سب مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 8 ماہ میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 78 کروڑ 44 لاکھ ڈالر تھی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 40.4 فیصد کم ہے۔

او آئی سی سی آئی کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ یہ ایف ڈی آئی کی سطح ہے جبکہ ملک کی سالانہ ایف ڈی آئی کی صلاحیت 9 ارب ڈالر ہے اور ترقی پذیر معیشتوں کے لیے عالمی معیار جی ڈی پی کا 3 فیصد ہے۔

ماہر معیشت حفیط اے پاشا کے مطابق مالی سال 23-2022 کے اختتام تک بے روزگار افراد کی تعداد 20 لاکھ سے بڑھ کر 80 لاکھ ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ لیبر فورس 7 کروڑ 53 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور بے روزگاری کی شرح پہلی مرتبہ 10 فیصد سے بڑھے گی۔

او آئی سی سی آئی کے 69 اراکین نے ایک نئے سروے میں حصہ لیا، جس کے مطابق 10 میں سے 9 کاروباروں پر گزشتہ 3 ماہ کے دوران منفی اثر پڑا ہے۔

سروے میں انکشاف ہوا کہ ہر دو میں سے ایک کاروباری پیداوار میں کمی کر رہا ہے یا عملے کو کم کر رہا ہے، نصف افراد نے جواب دیا کہ ری اسٹرکچرنگ یا مکمل یا جزوی بندش پر غور کر رہے ہیں۔

عامر پراچا نے بتایا کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ فارما اور آئل مارکیٹنگ کا شعبہ ہے، ان میں وہ پرتعیش اشیا شامل نہیں ہیں، ان کا مارجن ریگیولیٹ کے انداز کی وجہ سے کم ہوگیا ہے اور حکومت کو ان شعبوں کو استثنیٰ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پیناڈول کی قیمت مقرر کرنا ملک کے وزیر خزانہ کا کام نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں