اس تحریر کو لکھتے وقت میں نے سوچا کہ کیوں نہ پہلے ہم مصنوعی ذہانت سے ہی پوچھ لیں کہ مصنوعی ذہانت کیا ہوتی ہے؟ اور اس کی مصنوعی یادداشت میں اس کی تعریف کیا ہے؟ تو قارئین چیٹ جی پی ٹی کی مصنوعی ذہانت نے مجھے اس سوال کا جواب یہ دیا جو میں نیچے پیراگراف کی صورت میں لکھ رہا ہوں۔

بہ ظاہر یہ جواب بہت مکمل محسوس ہورہا ہے، لیکن آپ کی تفہیم کے لیے اس کو میں نے کچھ ترمیم کرکے درست کیا ہے اور قواعد کی غلطیاں بھی درست کی ہیں۔ ہرچند کہ اب یہ تحقیق مزید کئی نئے درجات تک جاپہنچی ہے لیکن کیا وہ ویسا رویہ اپناسکتی ہے جیسا انسان اپناتا ہےکیونکہ مشین اور انسان کے مابین ایک بہت بڑا فرق احساسات اور محسوسات کا ہے۔ اس خلیج کو پار کرنے میں مشینوں کو بہت وقت لگے گا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے مصنوعی جذبات پیدا کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست انسان کے دماغ اور حواس الخمسہ سے ہے۔

مصنوعی ذہانت کے مطابق وہ کیا ہے؟

’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلجنس) سے مراد ایسے کمپیوٹر سسٹمز کی ترقی ہے جو ایسے کام انجام دے سکتے ہیں جن کے لیے عام طور پر انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے بصری ادراک، تقریر کی شناخت، فیصلہ سازی، اور قدرتی زبان کی پروسیسنگ۔ مصنوعی ذہانت سسٹمز کو ڈیٹا سے سیکھنے، پیٹرن کی شناخت کرنے، اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر پیشین گوئیاں یا فیصلے کرنے کے قابل بناتا ہے۔

’یہ اکثر مشین لرننگ الگورتھم کے استعمال سے حاصل کیا جاتا ہے جو مصنوعی ذہانت سسٹم کو نئے ڈیٹا کا مسلسل تجزیہ کرکے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی بہت سی مختلف اقسام ہیں، بشمول اصول پر مبنی نظام، نیورل نیٹ ورک، جینیاتی الگورتھم، اور ماہر نظام۔ یہ نظام صحت کی دیکھ بھال اور مالیات سے لےکر نقل و حمل اور مینوفیکچرنگ تک، ہمارے رہنے اور کام کرنے کے طریقے میں انقلاب لانے کی صلاحیت کے ساتھ وسیع پیمانے پر شعبوں پر لاگو کیے جاسکتے ہیں‘۔

مصنوعی ذہانت بمقابلہ حقیقی ذہانت

اب آپ خود بتائیے کہ اگر مصنوعی ذہانت کی مشین سے کہا جائے کہ سعادت حسن منٹو نے اپنی کہانیوں اور کرداروں کے لیے یہ کیوں کہا کہ ’میری کہانیاں اور کردار برہنہ اور ننگے ہیں۔ میں ان کو کپڑے نہیں پہنا سکتا کیونکہ آپ کا سماج ہی بدصورت ہے۔ وہی بدصورتی اور غلاظت میری کہانیوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ویسے بھی کپڑے سلائی کرنا اور ملبوسات تیار کرنا درزی کا کام ہے، میں تو معاشرے کو اسی طرح پیش کروں گا جیسا وہ ہے‘۔ تو کیا یہ مصنوعی ذہانت اسی سطح پر آکر، جذبات کے بیان کی انہیں آمیزش کے ساتھ ایسی تحریر آپ کو لکھ کردے سکتی ہے؟

میرا جواب ہے نہیں، لیکن شاید بہت سارے دوست میرے اس جواب سے متفق نہیں ہوں گے۔ چلیں ہم اس پہلو کو ذرا کسی اور طرح دریافت کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی موجودگی، آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود کیوں ہمیں حقیقی ذہانت کی ضرورت رہے گی۔

ایک ذہین انسان کی بنائی ہوئی تصاویر انسانی ذہانت کی عکاس

اس کے لیے ہم یہاں ڈاکٹر شعیب سعادت کی بنائی ہوئی مصنوعی تصاویر کا انتخاب پیش کررہے ہیں جن کو انہوں نے مصنوعی ذہانت کے مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے تیار کیا ہے۔

مصنوعی ذہانت اور حقیقی ذہانت کے امتزاج سے تصاویر بنانے والے اس فنکار کا پس منظر یہ ہے کہ وہ کیمرج یونیورسٹی، انگلینڈ میں تحقیق کے طالب علم ہیں اور پی ایچ ڈی کی سند کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ چونکہ ان کا پیشہ ورانہ پس منظر ڈیٹا سائنس کا ہے اس لیے ان کا ماننا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت کے اصولوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہیں عام انسانی فہم کے مطابق ڈھالنے اور ترتیب دینے کی باریکیوں سے واقف ہیں۔

چند مشہور ہوتی مصنوعی ذہانت کی تصاویر

موجودہ زمانے میں یوں تو اب مصنوعی ذہانت کے استعمال سے کوئی بھی مصنوعی تصویر بنا سکتا ہے اور بہت لوگ یہ کر بھی رہے ہیں۔ ان میں کچھ تصاویر ایسی ہیں جو آپ کے دل میں گھر کرتی ہیں اور ان میں اکثریت انہیں تصاویر کی ہے جس میں انسانی فہم وفراست سے بھی مدد لی گئی ہے۔ یعنی کلی طور پر مصنوعی ذہانت پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر شعیب سعادت کی تصاویر میں انہی پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ان کی متعدد تصویریں وائرل بھی ہورہی ہیں جن میں سرفہرست وہ تصویر ہے جس میں آئن اسٹائن کو مفت راشن حاصل کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جس کے ہاتھ میں آٹے کا تھیلا ہے۔

یہ تصویر پاکستان میں بہت مقبول ہوئی اور ایسی کئی اور تصاویر ہیں جن کو ڈاکٹر صاحب نے تخلیق کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔ وہ انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی تھیمز پر کام کرتے ہیں اور اس طرح سے انہوں نے اپنے کام کو البمز کی صورت میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ آئیے ان کے چند منتخب البمز اور تصاویر سے ان کے وژن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس طرح پاکستان، برصغیر پاک وہندکی تاریخ، اسلامی تہذیب و تہوار اور دیگر پہلوؤں کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے پینٹ کرتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی تصاویر

ہم ان البمز کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح پاکستان اور دنیا بھرکے عصری مسائل کو تصاویر کی صورت میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے البمز کو مختلف نام بھی دیے ہیں اور انفرادی طور پر بنائی جانے والی تصاویر کو بھی مختلف نام دیے ہیں لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ جب ہم انسٹاگرام پر ان کی ابتدائی پوسٹوں کاجائزہ لیتے ہیں تو جب یہ اس تکنیک پر کام کررہے تھے تو اس سے قبل ان کے موضوعات کااظہار یہ بہت عام سا تھا۔ روایتی انداز میں وہ پاکستان کی سیاست اور ثقافت پر بات کررہے تھے اور عام تصاویر کی مدد سے اس کو بیان بھی کررہے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی اس تکنیک پر عبور حاصل کرلیا تب انہوں نے اپنی تکنیک سے اور اپنے افکار سے لوگوں کو حیران کرنا شروع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بھی ان کی جانب متوجہ ہوئے اور بے شک یہ انداز بہت پُرکشش ہے اور مصنوعی ذہانت کی خوبیوں کااعتراف کرنا پڑتا ہے لیکن کیا صرف مصنوعی ذہانت سے یہ ممکن ہوپاتا؟

10 منتخب تصویری البمز بمعہ افکار

پہلے البم میں ڈاکٹر صاحب نے برصغیر پاک وہند کے اس دور کو دکھایا ہے جب پاکستان کے قیام کے لیے کوششیں ہورہی تھیں اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنما عوام میں موجود تھے۔ اس موقع پر اگر ٹیکنالوجی موجود ہوتی تو علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور دیگر رہنما کیسے دکھائی دیتے، یہ تصاویر اس تخیل کو بہت عمدہ انداز سے پیش کررہی ہیں۔ جہاں یہ رہنما عوام کے ساتھ سیلفی بنوارہے ہیں۔ یہ ایک شاندار آئیڈیا تھا جس کو مصنوعی ذہانت کی معاونت سے پورا کرنا ممکن ہوا۔

دوسرے البم میں دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد کو اگر فرض کریں کپڑے سینے پڑتے تو وہ کیسے دکھائی دیتے، اس البم میں ان لمحات کو مقید کیاگیا ہے۔ ان تصاویر میں فیس بک کے بانی مارک ذکربرگ، مائیکروسافٹ کے روح رواں بل گیٹس، دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک بھارتی تاجر مکیش انبانی اور ٹوئٹر کے نئے مالک ایلون مسک سمیت دیگر شامل ہیں۔ دراصل یہ البم بتاتا ہے کہ عید قریب ہو تو کس طرح درزی بہت مصروف ہوجاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے یہ شخصیات اپنی اپنی زندگیوں میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے مصروف ہیں۔

تیسرے البم میں پاکستان میں مفت آٹا حاصل کرنے کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے، یہ تصاویر اس کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصور کریں کہ دنیا کی نامور شخصیات اگر گم نام ہوتیں اور وہ پاکستان میں مقیم ہوتیں تو وہ اس آٹے کے تھیلے کو حاصل کرنے کے بعد کیسے لگتے۔ انہیں میں سے ایک تصویر آئن اسٹائن کی ہے جو اس دکھی ماجرے کی سفاکی اور اذیت کو بیان کررہی ہے جس آٹے کے لیے کئی جانوں کا زیاں ہوا۔ ان تصاویر میں آٹے کا تھیلا اٹھائے دیگر معروف شخصیات بھی دکھائی دیں گی۔

چوتھے البم میں مزدوروں کے چہرے پر چھائی اداسی اور بے بسی کو منعکس کیاگیا ہے۔ پانچویں البم میں کارٹون کریکٹرز کی صورت میں مختلف مشہور شخصیات کے پورٹریٹ بنائے گئے ہیں جن میں بل گیٹس اور دیگر بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات شامل ہیں۔

چھٹے البم میں دکھایا گیا ہے کہ اگر معروف فلم اسٹارز عام پاکستانی شہری اور کرکٹ کے شیدائی ہوتے اور اگر کسی اہم میچ میں کیچ چھوٹ جاتا تو ان کے تاثرات کیا ہوتے۔ اس البم میں ٹام کروز، لینارڈو ڈی کیپریو سمیت مقبول فنکاروں کی تصاویر شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ساتویں البم میں عید کے دن یہ معروف شخصیات کیسی دکھائی دیتیں وہ مناظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ آٹھواں البم مصنوعی ذہانت اور روبوٹس کی دنیا میں ہونے والی ترقی اور باریکی کو بیان کرتا ہے۔

نویں البم میں دکھایا گیا ہے کہ اگر فرض کریں قائداعظم محمد علی جناح سیاست دان نہ ہوتے اورجنگی پائلٹ ہوتے تو وہ کیسے دکھائی دیتے اور دسویں البم میں پاکستان کی معروف فلمی اور موسیقی صنعت سے وابستہ شخصیات کو تصوراتی طور پر لندن میں موجود دکھایا گیا ہے۔ ان میں سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، طارق عزیز اور نصرت فتح علی خان و دیگر شامل ہیں۔

آپ یہ تصاویر دیکھ کر بتائیے کہ اگر ڈاکٹر صاحب نے ان تصاویر کو پس منظر فراہم نہ کیا ہوتا تو فکری طور پر ایک مربوط کڑی تشکیل نہ دی ہوتی اور صرف یہی نہیں بلکہ انسان کے خالص جذبات کو تصاویر کے تھیم اور تاثرات میں گھول کر اس کا آمیزہ نہ بنایا ہوتا تو کیا یہ تصاویر آپ کو اپنی جانب متوجہ کرتیں؟ بالکل بھی نہیں، اسی لیے ہمارا خیال ہے کہ فی الحال تو مصنوعی ذہانت کے چرچے اپنی جگہ مگر وہ حقیقی ذہانت کی ہمیشہ محتاج رہے گی۔

مصنوعی ذہانت کی تصویر سازی کی سہولتیں

مصنوعی ذہانت جہاں ایک طرف ہر طرح کے موضوعات پر تحریری علم ضبط قلم لانے کی بات کررہی ہے وہیں دوسری طرف اس معلومات کے جہان کو متصور کرنے کا بھی مصنوعی سلسلہ جاری ہوچکا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے دو بڑے حوالے گوگل بارڈ اور چیٹ جی پی ٹی ہیں۔ ان دونوں نے لکھی ہوئی معلومات کے ساتھ متصور معلومات کو فراہم کرنے کی سہولت بھی متعارف کروادی ہے۔ اس سلسلے میں کئی دیگر ایپس بھی کام کررہی ہیں جن میں جیسپر، ڈیل ای ٹو، پکس آرٹ اور کینوا شامل ہیں۔ یہ وہ ایپس ہیں جو تحریری مواد کو تصویر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

تحریر کو تصاویر میں تبدیل کرنے کے لیے کئی ایپس کام کررہی ہیں
تحریر کو تصاویر میں تبدیل کرنے کے لیے کئی ایپس کام کررہی ہیں

اسی تناظر میں ایک اور برق رفتار اور یدطولیٰ رکھنے والی ایپ ’ناول اے آئی‘ ہے۔ یہ ایک پوری کہانی یا فلم کے اسکرپٹ کو اور کسی لکھے ہوئے ناول کو تصاویر میں تبدیل کرسکتی ہے، متن کو منظرنامے میں ڈھال سکتی ہے۔ اسی طرح چند ایک ایپس ایسی بھی ہیں جن کے ذریعے تصاویر میں جدت لائی جاسکتی ہے جیسا کہ آپ مذکورہ فنکار کی تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح کی ایپس میں فیس ایپ، ڈیپ اے آئی، ریمینی شامل ہیں جن کے ذریعے حقیقت سے قریب تر تصاویر بنائی جاسکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس درجے پر اینی میشن اور کارٹون سازی اب بچوں کا کھیل محسوس ہونے لگی ہے۔

حقیقی مصوری اور مصنوعی ذہانت کا تقابل

مصنوعی ذہانت وقت گزرنے کے ساتھ مزید ذہین ہوتی جارہی ہے۔ حال ہی میں گوگل کے لیے کام کرنے والے مصنوعی ذہانت کی دنیا کے ایک اہم نام ’ڈاکٹر جیفری ہنٹن‘ نے گوگل سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ انسانی مستقبل کے لیے اسے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں، تو ایسے میں روایتی دنیا جسے حقیقت کی دنیا بھی کہا جاسکتا ہے، وہاں فنکاروں اور مصوروں کا کیا مستقبل ہوگا؟ کیا یہ مصنوعی ذہانت مستقبل میں ان کاخاتمہ کردے گی؟

ایسے بہت سے سوالات ہمارے ذہن میں خدشات بن کر ابھرتے ہیں لیکن میرے خیال میں مصنوعی ذہانت اور حقیقی ذہانت کے حامل انسانی مصوروں کے مابین کوئی موازنہ بنتا نہیں ہے کیونکہ ایک انسان اپنی تصویر کو کینوس پر اتارنے سے پہلے اپنے تخیل میں تراشتا ہے، اس کا خاکہ بناتا ہے پھر اس کو حتمی شکل دےکر رنگوں کی آمیزش سے کینوس پر منتقل کرتا ہے۔

یہ صرف پینٹنگز نہیں ہوتیں بلکہ جذبات اور احساسات پر مبنی ایسی تصاویر ہوتی ہیں جو ہمیں زندگی کے مختلف پہلو دکھاتی ہیں۔ ان پینٹنگز میں فکری پیغامات پنہاں ہوتے ہیں، تجریدی مصوری (Abstract Art) اس بات کی ایک روشن مثال ہے۔ اب تجرید پر مبنی مصوری کو صرف انسان ہی پینٹ کرسکتا ہے اور انسان ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ اس قسم کی مصوری میں پیغام اور فکر بین السطور میں ہوتی ہے۔ تصویر کے اندر ایک تصویر ہوتی ہے جس کی تفہیم کرنا پڑتی ہے۔ میرے خیال میں بھلے مصنوعی ذہانت کی کوئی بھی ایپلیکیشن ہو وہ تہہ درتہہ تصویر کو پینٹ نہیں کرسکتے۔ یہی چیز ان کو مصنوعی ذہانت سے ممتاز کرتی ہے۔

انسان کی بنائی ہوئیں پینٹنگز جذبات اور احساسات پر مبنی تصاویر ہوتی ہیں
انسان کی بنائی ہوئیں پینٹنگز جذبات اور احساسات پر مبنی تصاویر ہوتی ہیں

یہ الگ بات ہے کہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں مصنوعی ذہانت یہ کام بھی اپنے ذمے لے سکے گی جس میں تخلیق کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ احساسات بھی بغل گیر ہوں گے۔ فی الحال تو یہ ہوتا ہوا ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن شاید مستقبل میں ایسا کچھ ہوسکے۔ تاہم انسان کی ذہانت کے آگے جانا بہت مشکل امر ہے۔ ابھی تو انسان ہی تخلیق کو مکمل کرنے پر حتمی فیصلہ ساز رہے گا۔

’مصنوعی ذہانت مشق کا متبادل نہیں ہوسکتی‘

اس حوالے سے جب ہم نے انور مقصود سے یہ دریافت کیا جو خود فن وفکر کے عظیم فنکار ہیں اور بہت اچھے مصور بھی ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت اور مصور کے مابین تقابلی جائزے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو انہوں نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مصنوعی ذہانت حقیقی ذہانت کو مات نہیں دے سکتی۔ انسان کا ذہن صرف تصویر پینٹ نہیں کرتا بلکہ افکار کو بھی پینٹ کرتا ہے، مصنوعی ذہانت ابھی یہ مرحلہ پار نہیں کرسکتی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک مصور کے کام کی پیچھے سال ہا سال کی مشق بھی ہوتی ہے اور مصنوعی ذہانت کسی بھی صورت مشق کا متبادل نہیں ہوسکتی۔

حرف آخر

ان تصاویر کو دیکھ کر ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا طلسم اپنی جگہ لیکن انسانی ذہانت کی معراج کو پہنچنا فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ انسان بھلے مشین بھی بن جائے یا حیوان ناطق بھی ہو مگرپھر بھی وہ رہتا انسان ہی ہےکیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے جس نے اس کائنات کو دریافت کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور آئے دن وہ اس مقصد کے تحت نت نئی دریافتیں کررہا ہے۔ مصنوعی ذہانت بھی انسان کی دریافت ہے نہ کہ وہ مصنوعی ذہانت کی دریافت ہے۔ اس موقع پر جون ایلیا کی ایک غزل کے چند اشعار پڑھتے جائیے جن میں یہ ساری کیفیت حضرتِ جون نے بہت پہلے ہی بیان کردی تھی جب مصنوعی ذہانت کا دور دور تک کچھ پتا نہ تھا۔ وہ فرماتے ہیں

ہار آئی ہے کوئی آس مشین

شام سے ہے بہت اداس مشین

یہی رشتوں کا کارخانہ ہے

اک مشین اور اس کے پاس مشین

شہر اپنے، بسائیں گے جنگل

تجھ میں اگنے کو اب ہے گھاس مشین

ایک پرزا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا

اب رکھا کیا ہے تیرے پاس مشین

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں