توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار: فرد جرم عائد کرنے کیلئے عمران خان 10 مئی کو طلب

اپ ڈیٹ 05 مئ 2023
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت درخواست گزار 120 دنوں کے اندر شکایت دائر کرنے کا اہل ہوتا ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت درخواست گزار 120 دنوں کے اندر شکایت دائر کرنے کا اہل ہوتا ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں ان کے وکلا کی درخواستیں مسترد کر دیں اور عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 مئی کو طلب کر لیا۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کی۔

سماعت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن اور امجد پرویز، عمران خان کے وکلا خواجہ حارث، گوہر علی خان، شیر افضل مروت اور خالد یوسف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہنواز رانجھا عدالت میں پیش ہوئے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ توشہ خانہ کیس کے قابلِ سماعت ہونے کے خلاف درخواست الیکشن ایکٹ سیکشن 190 اے کے تحت دائر کی گئی ہے کہ سیشن عدالت توشہ خانہ کیس کی براہ راست سماعت نہیں کرسکتی۔

خواجہ حارث نے عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے عدالت میں الیکشن ایکٹ کا سیکشن 190 اور 193 پڑھ کر سنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیس کا قابلِ سماعت ہونا اور ٹرائل ہونا دو مختلف چیزیں ہیں، سیشن عدالت اسی وقت کیس سن سکتی ہے جب یہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190 کے تحت بھیجا جائے۔

خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کیس کا تاحال ٹرائل شروع ہوا نہ انکوائری شروع ہوئی، سیشن عدالت کو کیس کو سننے سے قبل الیکشن ایکٹ سیکشن 190 اے سے گزرنا ہوگا۔

دورانِ سماعت وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کی حمایت میں مختلف عدالتوں کے فیصلے پڑھ کر سنائے۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ درخواست گزار ضلعی الیکشن کمشنر کی جانب سے شکایت دائر کرنے کا قانونی طریقہ کار درست نہیں، شکایت مجسٹریٹ کی عدالت میں جانے کے بعد سیشن کورٹ جانی چاہیے۔

بعد ازاں خواجہ حارث کی درخواست پر عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کیس کے ناقابل سماعت ہونے کے حق میں دلائل دینے کا سلسلہ پھر سے شروع کیا، اس دوران انہوں نے مختلف عدالتی نظیروں کا حوالہ دیا۔

خواجہ حارث نے دلائل مکمل کیے تو جج کا ان سے مکالمہ ہوا، جج نے کہا کہ آپ کے دلائل دونوں درخواستوں پر مکمل ہو چکے ہیں۔

جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی میں نے توشہ خانہ کیس کے دائرہ اختیار پر دلائل دیے ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ دونوں درخواستوں پر دلائل دے دیے ہیں تو فیصلہ سنادیں۔

اس پر جج نے کہا کہ آپ عدالت کو نہیں کہہ سکتے کہ فیصلہ کریں یا نہ کریں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ وکیل گوہر علی خان نے گزشتہ سماعت پر درخواستوں پر دلائل دینے کا بیان حلفی دیا تھا، تاہم خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ گوہر علی خان نے کون سا بیان حلفی دیا۔

جج نے استفسار کیا کہ سیشن عدالت سے آپ کے مؤکل کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے جو اپیل پر بھی مسترد ہوئے، لیکن اس وقت آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اعتراض نہیں اٹھایا کہ سیشن عدالت وارنٹ جاری نہیں کر سکتی؟

وکیل امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ میرا اعتراض تو یہ ہے کہ عمران خان کی دونوں درخواستیں قابل سماعت ہیں بھی یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیشن عدالت اپنا فیصلہ واپس نہیں لے سکتی، عمران خان کو ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خواجہ حارث نے استدعا کی کہ سماعت آئندہ جمعہ تک ملتوی کردیں، کیس کو کیس رہنے دیں۔

تاہم جج نے ریمارکس دیے کہ درخواستوں کی حد تک سماعت ملتوی نہیں ہوگی، دلائل آج ہی دینے ہوں گے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عمران خان دیر سے اٹھتے ہیں، جوڈیشل کمپلیکس بھی 4 بجے آئے تھے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے ٹرائل کو آج ہی مکمل کریں، ٹرائل پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں بیان حلفی کی ضرورت کیوں پیش آئی، وکلا کی ہڑتال والے دن مکمل دلائل دینے کو تیار تھا، الیکشن کمیشن کے وکلا کی تیاری دونوں درخواستوں پر ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن کمیشن کے وکلا کی تیاری ہے تو آپ بھی دونوں درخواستوں پر تیاری کر کے آتے۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس کے دائرہ اختیار کا معاملہ جج ظفر اقبال کے سامنے بھی رکھا تھا۔

جج نے مزید کہا کہ سیشن عدالت نے کیس کی سماعت، اس میں وارنٹ اور نوٹسز سب جاری کردیے، سیشن عدالت کے متعدد فیصلوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا گیا، دونوں درخواستوں کی بنیاد تو بتا دیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ توشہ خانہ کیس کو عام کیس کی طرح لیا جائے، کیا رات تک سنیں گے؟

وکیل سعد حسن نے کہا کہ آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے، خواجہ حارث نے جو دلائل دینے ہیں دے دیں، جس پر خواجہ حارث بولے عدالت سے احسان نہیں چاہیے، کیس سنا جائے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کو لگتا ہے اپنے دلائل پر بھی اعتبار نہیں، میں ایک فیصلے سے دونوں درخواستوں کو مسترد کرسکتا ہوں، وکیل گوہر علی خان نے دونوں درخواستوں پر بحث کرنے کی انڈرٹیکنگ دی تھی۔

گوہر علی خان نے کہا کہ بحث تو کر رہے ہیں لیکن عدالتی اوقات ختم ہوچکے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ توشہ خانہ کیس کو سارا دن نہیں چلایا جاسکتا، عدالت میں بحث کرنے کے لیے آئے ہیں، تاریخ لینے کے لیے نہیں آئے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عمران خان کے وکلا قسطوں میں توشہ خانہ کیس کو چیلنج کر رہے ہیں۔

بعد ازاں خواجہ حارث نے توشہ خانہ کیس کے ناقابلِ سماعت ہونے پر دلائل دینے شروع کیے اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے آفس کو عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی ہدایت کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کرپٹ پریکٹس پر قانونی کارروائی کرنے کا دائرہ اختیار ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کسی فرد کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دیتا ہے لیکن کمیشن نے ضلعی الیکشن کمشنر کو عمران خان کے خلاف شکایت دائر کرنے کی ہدایت نہیں دی۔

دریں اثنا عمران خان کے خلاف شکایت کنندہ ضلعی الیکشن کمشنر وقاص ملک کمرہ عدالت پہنچ گئے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ شکایت گزار وقاص ملک شکایت دائر کرتے وقت ضلعی الیکشن کمشنر تھے ہی نہیں، وقاص ملک کے درخواست پر دستخط بھی مختلف ہیں، مختلف دستخط اور تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ درخواست غلط بیانی پر مبنی ہے۔

خواجہ حارث نے درخواست گزار کی شکایت قابلِ سماعت ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف شکایت الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت دائر کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت درخواست گزار 120 دنوں کے اندر شکایت دائر کرنے کا اہل ہوتا ہے، عمران خان کے خلاف شکایت اس مدت کے اندر دائر نہیں کی گئی۔

انہوں نے دونوں درخواستوں پر دلائل مکمل کرلیے تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دینا شروع کیے۔

وکیل امجد پرویز کی جانب سے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کے حوالے دیتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 190 اے کا سب سیکشن 2 کہتا ہے کہ ہر ٹرائل پر سی آر پی سی اپلائی نہیں ہوتا۔

وکیل امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ جناب کے سامنے جتنے بھی آڈر پیش کیے گئے ہیں وہ اس پر اپلائی نہیں ہوتا، وہ دوسرے قانون کے تحت ہیں۔

انہوں نے 1996 میں الیکشن قوانین سے متعلق کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بھی الیکشن قوانین کو زیر بحث لایا گیا تھا، اس کیس میں بھی الیکشن قوانین کو چیلنج کیا گیا، اس فیصلے کے مطابق سیشن کورٹ کا ہی دائرہ اختیار بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 15 دسمبر 2022 کو عدالت نے ملزم کو سمن جاری کیا، اگر عدالت کو ادراک ہو کہ جرم سرزد ہوا تو کارروائی کا اختیار ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں عدالت نے ملزم کو وارنٹ جاری کیے اور ملزم کی جانب سے بریت کی درخواست دائر کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کو بتانا چاہوں گا کہ بریت کی درخواست کس وقت دائر کی جا سکتی ہے، اتنا وقت گزرنے کے باوجود ٹرائل کو تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ای سی پی کی خود اسکروٹنی کردہ گوشواروں کی تفصیلات ای سی پی کے ملازم نے جمع کروائیں، عمران خان نے جان بوجھ کر اثاثوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، 120 دنوں کا وقت ایسی صورتحال میں نافذ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ نوٹس جاری ہوئے، فریقین کو سنا گیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنایا، کرپٹ پریکٹس کے بعد عمران خان نہ کہیں کہ 120 دن گزر گئے، مجھ سےکچھ نہ پوچھو، عمران خان پر الزام الیکشن ایکٹ سیکشن 173 کے تحت ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیشن عدالت کو 3 ماہ کے اندر کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ کرنے کا حکم ہے، الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی ہدایت دی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید دلائل دیے کہ الیکشن ایکٹ 190 کے تحت فوجداری کارروائی کی شکایت فائل کرنا غیرقانونی نہیں، شکایت دائر کی گئی اور توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوتی رہیں، شکایت کنندہ کے دستخط پر اعتراض اٹھایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حیرانی ہے کہ موجودہ مرحلے پر شکایت کنندہ کے دستخط پر اعتراض اٹھایا گیا، عمران خان نے دونوں درخواستیں کیس کو تاخیر کا شکار بنانے کے لیے دائر کیں۔

وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل مکمل ہو گئے۔

ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد ازاں سناتے ہوئے عدالت نے عمران خان کے وکلا کی درخواستیں مسترد کر دیں اور عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 مئی کو طلب کر کیا۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں