برطانیہ میں دو تہائی نوجوان خواتین کو ملازمت کی جگہ پر ہراسانی کا سامنا

13 مئ 2023
پال نوواک نے کہا کہ ہر عورت کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے محفوظ ہونا چاہیے—فائل فوٹو: رائٹرز
پال نوواک نے کہا کہ ہر عورت کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے محفوظ ہونا چاہیے—فائل فوٹو: رائٹرز

ایک تازہ سروے کے مطابق برطانیہ میں ملازمت کی جگہوں پر ہر 3 میں سے 2 نوجوان خواتین کو جنسی طور پر ہراسانی، غنڈہ گردی یا زبانی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

تاہم ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی لیبر آرگنائزیشن ’ٹریڈز یونین کانگریس‘ کے سروے کے مطابق زیادہ تر متاثرہ خواتین اس خوف سے واقعات کی اطلاع نہیں دیتیں کہ ان پر یقین نہیں کیا جائے گا یا اس سے ان کے پیشہ ورانہ تعلقات اور کیریئر کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

مذکورہ ادارے نے یہ نتائج برطانیہ کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی مہم کے حصے کے طور پر جاری کیے کہ وہ ملازمین کو حملے اور ہراساں کرنے سے بچانے کے لیے بنائے گئے نئے قوانین پر پیچھے نہ ہٹیں۔

ایک ہزار خواتین کی آرا پر مشتمل سروے کے مطابق ہر 5 میں سے 3 خواتین نے ملازمت کی جگہ پر اس طرح کے واقعات کی اطلاع دی لیکن 25 سے 34 سال کی عمر کے درمیان والی خواتین میں یہ شرح دو تہائی تک پہنچ گئی۔

ان میں سے کئی کیسز نہ صرف ملازمت کی جگہ پر بلکہ فون، ٹیکسٹ میسجز اور ای میلز اور سوشل میڈیا یا ورچوئل میٹنگز کے دوران بھی ہوئے۔

’ٹریڈز یونین کانگریس‘ کا کہنا ہے کہ کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے والے نئے قانون کو حکمران کنزرویٹو پارٹی کے کچھ قانون سازوں کے ذریعے سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔

جنرل سیکریٹری ’ٹریڈز یونین کانگریس‘ پال نوواک نے کہا کہ ہر عورت کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے محفوظ ہونا چاہیے لیکن آئے روز ملازمت کی جگہوں پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم بہت ساری خواتین کو جانتے ہیں جنہیں ملازمتوں کی جگہوں پر صارفین کی جانب سے باقاعدگی سے بدسلوکی کا شکار ہوتی ہیں، جدید دنیا میں ملازمت کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کرنے اور دھونس جمانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘۔

سروے کے مطابق جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی ہر 3 خواتین میں سے ایک یا اس سے کم نے اپنے ادارے کو اس حوالے سے مطلع کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں