پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندے نے کہا ہے کہ بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت کے دوران معاہدے کے لیے پاکستان کی بیرونی فنانسنگ ضروریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے ایستھر پیریز روئز نے اپنے پیغام میں بتایا کہ مقامی میڈیا پر چلنے والی ان رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں کہ آئی ایم ایف، پاکستان سے نئی فنانسنگ کو 8 ارب ڈالر تک بڑھانے کا کہہ رہا ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف نمائندے کی طرف سے ایسی وضاحت ’ایکسپریس ٹربیون‘ میں ہفتہ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہے جس میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے مئی تا دسمبر 2023 کی مدت کے لیے آنے والی قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے اضافی فنانسنگ کی 6 ارب ڈالر کی شرط کو 8 ارب ڈالر تک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

آج ایستھر پیریز روئز نے کہا کہ بیل آؤٹ پیکج پر ہونے والی پوری بات چیت کے دوران بیرونی فنانسنگ کی ضروریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

نویں جائزے پر اسٹاف لیول معاہدہ نومبر سے تاخیر کا شکار ہے جہاں پاکستان میں اسٹاف لیول کے آخری مشن کے دورے کو تقریباً 100 دن گزر چکے ہیں جو کہ 2008 کے بعد سے سب سے طویل تاخیر ہے۔

جمعرات (11 مئی) کو آئی ایم ایف نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ فنڈز کے اجرا کی منظوری سے قبل دوست ممالک سے بیرونی فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل ضروری ہوگی۔

متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین مارچ اور اپریل میں پاکستان کی مدد کے لیے وعدوں کے ساتھ سامنے آئے تھے تاکہ اس سے ملک کے مالیاتی خسارے کو کسی حد تک پورا کیا جاسکے۔

جمعرات کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اسٹیٹ بینک کے ذخائر 7 کروڑ 40 لاکھ ڈالر گر کر 4.38 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو کہ بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے جمعرات کو ایک سیمینار میں کہا تھا کہ پاکستان، آئی ایم ایف کے ساتھ یا اس کے بغیر ڈیفالٹ نہیں کرے گا، اور ملک آئی ایم ایف کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اضافی سخت اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ادھر پاکستان نے ایندھن کی کراس سبسڈی کو لاگو کرنے کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا ہے جس سے آئی ایم ایف میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔

آئی ایم ایف کے نمائندے نے کہا کہ پاکستانی حکام نے گزشتہ ماہ موسم بہار کی میٹنگز میں آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ مالی سال 2023 یا اس کے بعد کراس سبسڈی اسکیم متعارف نہیں کرائیں گے، اسکیم عمومی طور پر روایتی اور غلط استعمال کا شکار تھی۔

انہوں نے ’رائٹرز‘ کو علیحدہ ٹیکسٹ میسج میں کہا کہ ’اعلان کردہ ایندھن کی کراس سبسڈی اسکیم نے نئے نیم مالی اور توازن کی ادائیگی کے خطرات کو جنم دیا ہے اور یہ دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔‘

تبصرے (0) بند ہیں