9 مئی کے واقعات میں مطلوب ملزمان کی گرفتاریاں جاری، اہلِ خانہ کو ہراساں کرنے کی اطلاعات

اپ ڈیٹ 22 مئ 2023
متواتر چھاپوں سے مطلوب افراد کے اہل خانہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے—تصویر: اے ایف پی
متواتر چھاپوں سے مطلوب افراد کے اہل خانہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے—تصویر: اے ایف پی

جیسے جیسے 9 مئی کے تشدد میں مطلوب ملزمان کی گرفتاریاں جاری ہے، ان کے اہل خانہ، پڑوسیوں اور دوستوں کو ہراساں کرنے کی شکایات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ واقعات میں پولیس صحافیوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے جو پی ٹی آئی کے احتجاج کی کوریج کر رہے تھے۔

رپورٹس میں کہا گیا کہ پولیس کی تین مختلف ٹیموں نے اچھرہ میں صحافی جہانگیر حیات کے گھر پر چھاپا مارا اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے لبرٹی چوک میں نظر آنے کے بعد انہیں حراست میں لے لیا۔

جہانگیر نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے ادارے ٫بزنس ریکارڈر کے لیے اس واقعے کی کوریج کر رہے ہیں لیکن وہ قائل نہیں ہوئے۔

جس پر کچھ مقامی لوگوں نے مداخلت کی اور انہیں پولیس کی گرفت سے آزاد کرایا، صحافی نے بعد میں لاہور پریس کلب کا دورہ کیا جہاں اس نے سینئر ساتھیوں سے مدد طلب کی۔

وہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس روز پولیس کی ایک اور ٹیم نے بھی ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا جبکہ شام کو، ایک تیسری ٹیم نے ان کے گھر پر دھاوا بولا اور ان کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کو ہراساں کیا۔

جہانگیر کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے سینئر پولیس افسران کو آگاہ کیا تھا کہ جہانگیر کا پی ٹی آئی سے تعلق ہے اور نہ ہی وہ ان کے احتجاج کا حصہ تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اسی طرح کے ایک کیس میں پولیس ٹیموں نے جی این این کے لیے کام کرنے والے صحافی سرفراز خان کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا اور وہاں نہ ملنے پر ان کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر ہراساں کیا۔

ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے احتجاج کی کوریج کر رہے تھے لیکن پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر ان کا نام مشتبہ افراد کی فہرست میں ڈال دیا۔

اطلاعات تھیں کہ پولیس کی متعدد ٹیمیں بشمول کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ، لاہور کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے)، پولیس کے انویسٹی گیشن اینڈ آپریشنز ونگ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہنگاموں میں ملوث مشتبہ افراد کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے۔

ذرائع نے بتایا کہ متواتر چھاپوں سے مطلوب افراد کے اہل خانہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جو گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے ٹھکانے بدل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مشتبہ افراد اور ان کے اہل خانہ روپوش ہو کر اپنے گھروں کوتالے لگا دیے اور اپنے موبائل فون بند کر لیے ہیں، ایک اہلکار نے کہا کہ دربدر ہونے والے زیادہ تر خاندان انتہائی پریشانی کا شکار ہیں کہ کہاں پناہ لیں’۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی کارکن خدیجہ شاہ نے فسادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے درمیان حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔

سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کی بیٹی خدیجہ پر کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کی ’رہنمائی‘ کا الزام ہے۔

جب سے حکام نے کریک ڈاؤن شروع کیا ہے تب سے وہ روپوش ہیں، انہوں نے اتوار کو ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ ’میں خود کو پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔ میں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کیونکہ گزشتہ پانچ روز میرے لیے بہت مشکل رہے‘۔

تاہم ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ انہوں نے گرفتاری پیش کرنے کے لیے رات 9 بجے تک کسی تھانے کا دورہ نہیں کیا تھا۔

مزید گرفتاریاں

ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے اتوار کو بھی کچھ وکلا، یوٹیوبرز اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کیا جنہیں 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر اور باہر ویڈیو کلپس اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے دیکھا گیا۔

زمان پارک میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پولیس سیکیورٹی کے حوالے سے ایک اہلکار نے بتایا کہ اہلکاروں کی تعداد 106 سے بڑھا کر 200 کردی گئی ہے۔

علاوہ ازیں اتوار کے روز جناح ہاؤس پر آتشزدگی کے حملوں کا ایک نیا کلپ وائرل ہوا جس میں فرنیچر جلاتے ہوئے مظاہرین کو وہ نعرہ لگاتے ہوئے سنا گیا کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی فوج کے عزائم سے منسوب ہے کہ ’گھر میں گھس کر ماریں گے‘،یعنی پاکستان کو اس کی سرزمین پر ماریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں