پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آڈیو لیکس معاملے کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈووکیٹ بابر اعوان کے توسط سے جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

خیال رہے کہ 21 مئی کو وفاقی حکومت نے عدلیہ اور ججوں سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔

کمیشن کے قیام کا نوٹی فکیشن کابینہ ڈویژن سے جاری کیا گیا جو 19 مئی کو گزیٹ آف پاکستان میں شائع ہوا تھا۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ حال ہی میں قومی الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر عدلیہ، سابق چیف جسٹسز، ججوں کی گفتگو سے متعلق گردش کرنے والی متنازع آڈیوز نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس، ججز کی غیر جانب داری، آزادانہ اور دیانت داری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کے حوالےسے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ چنانچہ عوامی مفاد میں عدلیہ کی ساکھ اور عوام کا اس پر بھروسہ اور اعتماد بحال کرنے کے لیے ان آڈیو لیکس کی صداقت اور درستی کی تحقیقات کرنا لازم ہے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کی دفعہ 3 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت پاکستان ان مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دے رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کے سربراہ، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کمیشن کے اراکین میں شامل ہیں۔

نوٹی فکیشن میں درج کمیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن آڈیو لیک اور اس کے عدلیہ کی خود مختاری پر اثرات کا جائزہ لے گا۔

کمیشن مبینہ طور پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور ایک وکیل کے درمیان سپریم کورٹ کے ایک حاضر جج سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات بھی کرے گا۔

اس کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ اور وکیل کے درمیان مخصوص بینچوں کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

ٹی او آر کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ اور سپریم کورٹ کے موجودہ جج کی مبینہ آڈیو لیکس کے علاوہ سابق چیف جسٹس سے متعلقہ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بینچ کے متوقع فیصلے سے متعلق ایک صحافی کی ایک وکیل کے ساتھ، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان کی ساس کی ایک وکیل کی اہلیہ کے ساتھ اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی اپنے دوست کے ساتھ اپنے والد کے سیاسی کردار سے متعلق گفتگو کی مبینہ آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔

نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان کمیشن کی معاونت کریں گے اور اسے درکار تمام مواد اور دستاویزات بھی فراہم کریں گے۔

حکومت نے ہدایت کی وفاق میں موجود تمام اتھارٹیز اور صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ کمیشن کے کام میں اس کی معاونت کریں اور اس کی جانب سے کسی ہدایت کی صورت میں اس کی تعمیل کریں۔

اس کے علاوہ کمیشن کو وفاقی حکومت کے خرچے پر سیکریٹریٹ قائم کرنے اور سیکریٹری تعینات کرنے کا بھی اختیار ہوگیا۔

نوٹی فکیشن کے مطابق انکوائری کمیشن 30 روز میں تحقیقات مکمل کرے گا تاہم اگر کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت مزید وقت فراہم کرے گی۔

آڈیو لیکس تحقیقات کے لیے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کے قیام پر ردعمل میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کے معاملے پر 2017 کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے ترتیب دیے گئے ٹرمز آف ریفرنس میں ایک سوچا سمجھا نقص/خلا موجود ہے یا جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے، یہ (ٹی او آرز) اس پہلو کا ہرگز احاطہ نہیں کرتے کہ وزیراعظم کے دفتر اور سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کی غیرقانونی و غیرآئینی نگرانی کے پیچھے کون ہے؟

انہوں نے کہا تھا کہ کمیشن کو اس تحقیق کا اختیار دیا جائے کہ عوام اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو کی ٹیپنگ اور ریکارڈنگ میں کون سے طاقتور اور نامعلوم عناصر ملوث ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت پرائیویسی کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

ملک بھر میں آرٹیکل 245 کا نفاذ بھی عدالت عظمیٰ میں چیلنج

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے بیرسٹر گوہر کے توسط سے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خلاف درخواست دائر کردی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں فوج کو مقرر کردیا گیا ہے۔

درخواست میں بتایا گیا ہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیرقانونی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے جن پر طری سے تشدد اور طاقت کا استعمال کیا گیا اور ان عناصر نے پہلے سے ہی وہاں موجودہ ہجوم کو تشدد میں شامل ہونے کے لیے اکسایا۔

مزید کہا گیا ہے کہ یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تاکہ ایک سیاسی جماعت اور اس کے کارکنان کے خلاف جارحانہ کریک ڈاؤن کا آغاز کیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 245 کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔

آرٹیکل 245 کا نفاذ سیاسی مخالفین کو افواج سے لڑانے کے لیے ہے اور فوجی عدالتوں میں ٹرائل بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین ہر شہری کو شفاف اور منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے، تاریخ میں کبھی ہزاروں سیاسی کارکنوں اور لیڈرز کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت آرٹیکل 245 کا نفاذ اور اس کے تحت ہونے والا کریک ڈاؤن کالعدم قرار دے۔

تبصرے (0) بند ہیں