انسانی حقوق کے چیمپیئن بننے والے کشمیر کی صورتحال پر خاموش کیوں ہیں، بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 22 مئ 2023
بلاول بھٹو زرداری آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے— فوٹو: اسکرین گریب
بلاول بھٹو زرداری آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے— فوٹو: اسکرین گریب

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں میں انسانی حقوق کے چیمپیئن بننے والے کشمیر میں سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں کیسے بند کرسکتے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کشمیر کے نمائندوں نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کے نمائندوں کے مقابلے میں زیادہ میچور اور سنجیدہ ہیں اور اس وقت یہاں کی اسمبلی ہماری اسمبلی سے بہتر چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہاں کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے آیا ہوں، مسئلہ جموں و کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے، کشمیریوں کے حقوق اور خواہشات کچلے گئے، آزاد جموں و کشمیر کے جس خطے میں ہم آج کھڑے ہیں اس کو خون کی قیمت میں آزاد کروایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جموں ریجن میں 1947 میں ہوئے مسلم کا قتل عام ہم نہیں بھولے، وہ اس تحریک کے اولین شہدا میں سے تھے، حیرت انگیز طور پر بھارت دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جموں و کشمیر ان کا غیر متنازع علاقہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت، مسئلہ جموں و کشمیر سلامتی کونسل لے کر گیا اور یہ مسئلہ حل طلب اور عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے اور طے ہے کہ اس کا حتمی حل اقوام متحدہ کی سربراہی میں ریاست آزاد اور شفاف رائے شماری کے ذریعے نکالے گی۔

انہوں نے کہا کہ 70 سے زائد دہائیوں سے کشمیریوں کے بنیادی حق کو روندا جا رہا ہے، آج میں دنیا سے کہنا چاہتا ہوں کہ کیا ایک ملک کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے فیصلوں اور اپنے وعدوں کو توڑے اور کھلم کھلا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت کیے گئے وعدے اہم ہیں، بھارت کی جانب سے کشمیر کے عوام کے حقوق سے مسلسل روگردانی ایک غیر قانونی قدم ہے، دوہرے معیار کی سفارت کاری یا بھارت ریاستی دہشت گردی کسی قیمت اس حقیقت کو دھندلا نہیں سکتی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کو اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے اور اس کے تحت کشمیر کو آزادی دینی ہوگی، آج کشمیر کھلی جیل ہے، جہاں کشمیر کے مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کردیا گیا ہے، ہزاروں افراد کو مار دیا گیا، غائب کردیا گیا یا بینائی سے محروم ہوچکے ہی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کی زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی جائیدادیں تباہ کی جارہی ہیں، ان کی ثقافت تبدیل کی جا رہی ہے، میڈیا پر قدغن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی قابض افواج کشمیری مسلمانوں پر تشدد، ماورائے قانون قتل میں ملوث ہیں اور بھارت کے کالے قانون قابض افواج کو مکمل استثنیٰ دے رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کا یہ منظم ظلم نہ صرف عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ مذاق ہے، میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں جو قواعد کی بنیاد پر بین الاقوامی آرڈر اور انسانی حقوق کے چیمپیئن بنتے ہیں، وہ کیسے اس ظلم پر اپنی آنکھ بند کرسکتے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ جو یورپ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بارے میں فعال ہوسکتا ہے وہ کشمیر کے حوالے سے انہی خلاف ورزیوں پر اندھا کیسے ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام ظلم کا ایک نیا باب ہے، جس کی وجہ سے کشمیری اپنی سرزمین میں مجبور اقلیت میں بدل گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غیر مقامی لاکھوں افراد کی تازہ رجسٹریشن، ڈومیسائل سرٹیفکیٹس اور عارضی طور پر رہائش پذیر لاکھوں افراد کو ووٹ کا حق دینا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ جموں و کشمیر کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ختم کردی جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اس طرح کی یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات یکسر انداز میں مسترد کرتا ہے، دنیا یکطرفہ اقدامات اور ریاستی مظالم پر کیسے خاموش رہ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت سیاحتی گروپ کے اجلاس کی میزبانی سری نگر میں کر رہا ہے، امور نوجوانان کی مشاورتی فورم کے اجلاس گزشتہ چند ہفتوں میں جموں، لیہہ اور سری نگر میں منعقد ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت جی20 کے چیئر کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کر رہا ہے، جس فورم کی تشکیل کا مقصد عالمی اقتصادی مسائل تھا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے میزبانی کی جا رہی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ آج کشمیر دنیا کے ان سب سے زیادہ ملٹری سے بھرے ہوئے علاقوں میں سے ایک ہے، عام علاقوں میں لاکھوں فوج تعینات نہیں کی جاتی ہے اور نام نہاد گورنر رول کے تحت نہیں چلائے جاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ عام علاقوں میں نامعلوم قبرستان نہیں ہوتے، معمول کے علاقوں میں شہریوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت دی جاتی ہے، صحافیوں کو رپورٹ کرنے کی آزادی ہوتی ہے، ایسے میں بھارت کیسے دعویٰ کرسکتا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں بھارتی حکام کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جموں و کشمیر پر یکطرفہ اقدامات سے آپ کے مظالم کو نہ تو قانونی لبادہ مل سکتا ہے اور نہ ہی قبضے کو جواز مل سکتا ہے، اگر بھارت سپرپاور بننا چاہتا ہے تو سپر پاور کی طرح اقدامات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے خود اجلاس میں کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال پر آواز اٹھانی اور مذمت کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں دنیا کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی 2018 اور 2019 کی دو رپورٹس ہیں، جو ہمیں اخلاقی طور پر صورت حال کی طرف متوجہ ہونے پر زور دے رہی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کشمیر کے بغیر لفظ پاکستان نامکمل ہے، پاکستان اور کشمیر کے عوام میں منفرد یکسانیت ہے، جس کی بنیاد مشترکہ جغرافیہ، تاریخ، ایک جیسی امیدیں اور احساسات ہیں اور ہمارے ایک جیسے خواب ہیں اور دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو پاکستان نظر انداز نہیں کرسکتا، یہ ہماری چوائس نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھارت سمیت پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تاہم اچھے تعلقات متنازع اقدامات سے قائم نہیں ہوسکتے ہیں، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل سے جڑا ہوا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے، شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں شرکت کے دوران میں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ حالات اگست 2019 سے پہلے کی طرح بحال کرے تاکہ آگے بڑھا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں