شیریں مزاری کا سیاست چھوڑنے کا اعلان: ’حکومت، فوج اور ملک کیلئے بڑی رسوائی‘

23 مئ 2023
شیریں مزاری کے سیاست چھوڑنے کے فیصلے پر صحافیوں، سول سوسائٹی  ارکان نے مایوسی کا اظہار کیا—فوٹو:ڈان نیوز
شیریں مزاری کے سیاست چھوڑنے کے فیصلے پر صحافیوں، سول سوسائٹی ارکان نے مایوسی کا اظہار کیا—فوٹو:ڈان نیوز

پی ٹی آئی کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی جانب سے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کے فیصلے پر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے رد عمل دیتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا اور ان حالات کی مذمت کی جن سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران انہیں گزرنا پڑا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ 12 روز تک میری گرفتاری، اغوا اور رہائی کے دوران میری صحت کے حوالے سے اور میری بیٹی ایمان مزاری کو جس صورتحال اور آزمائش سے گزرنا پڑا، میں نے جیل جاتے ہوئے اس کی وڈیو بھی دیکھی جب میں تیسری مرتبہ جیل جارہی تھی تو وہ اتنا رو رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں متحرک سیاست چھوڑ رہی ہوں، میں آج سے پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہوں گی، میرے بچے، میری والدہ اور میری صحت میری ترجیح ہیں، اب میں ان پر زیادہ توجہ دوں گی۔

سینئر صحافی حامد میر نے نجی نیوز چینل جیو سے بات کرتے ہوئے ان کے سیاست چھوڑنے کے فیصلے کو ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا۔

اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ نے بھی پی ٹی آئی کی سابق رہنما کے اعلان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے لیے ’شرمناک‘ دن قرار دیا۔

شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ وہ 72 سالہ خاتون ہیں، آپ کے ان کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن آپ انہیں بار بار جیل میں نہیں ڈال سکتے، انہیں ضمانت دی گئی کہ وہ پارٹی چھوڑ دیں۔

سیاسی تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ یہ پیشرفت حکومت، فوج اور ملک بھر کے لیے مکمل رسوائی ہے۔

نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں نمائندے سلمان مسعود نے کہا کہ شیریں مزاری کا فیصلہ واضح طور پر جبر اور دباؤ کے تحت تھا۔

سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ جس طرح سے شیریں مزاری کو اپنی پارٹی اور سیاست چھوڑنے پر ’مجبور‘ کیا گیا، اس پر دکھ ہوا۔

انہوں نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ شیریں مزاری نے کچھ کہے بغیر حقیقت میں بہت کچھ کہا جب انہوں نے اپنی بیٹی کی 12 دن کی حالت زار کو اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی بنیادی وجہ قرار دیا، اصل سوال یہ ہے کہ ان کی بیٹی کو ان تمام مصائب سے کیوں گزرنا پڑا۔

“انہوں نے کہا کہ کیا ان کا پارٹی چھوڑنا ان کی پارٹی کا نقصان ہے؟ ہاں ایک بڑا نقصن ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ قومی سیاست اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے سابق معاون خصوصی فہد حسین نے کہا کہ شیریں مزاری کے فیصلے کی وجوہات ’حقیقی‘ ہیں۔

صحافی مہرین زہرہ ملک نے امید ظاہر کی کہ شیریں مزاری سیاست سے عارضی چھٹی لے رہی ہیں۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ سیاست سے ان کی مستقل کنارہ کشی ایک بہت بڑا نقصان ہوگا، پاکستان کو سیاست میں ان جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، آج اس ملک کے لیے واقعی دکھی ہوں۔

جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار اور امریکی اسکالر مائیکل کوگل مین نے شیریں مزاری کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ اسٹیبلشمنٹ پارٹی پر ہر سطح پر شکنجہ سخت کرتی جارہی ہے۔’

ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ شیریں مزاری کا پی ٹی آئی چھوڑنا پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے دباؤ میں استعفیٰ دیا ہے، لیکن شیریں مزاری جیسا سینئر کوئی نظر نہیں آیا۔

تجزیہ نگار اور صحافی مظہر عباس نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے امتحان کی گھڑی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کے اعلان پر مظہر عباس نے کہا کہ اگرچہ یہ ہماری جلی ہوئی سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ وقت ماضی سے کچھ سبق سیکھنے کا ہے۔

اسی دوران وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی سیاسی بنیادوں پر کی گئی گرفتاریوں کی حمایت نہیں کی لیکن پی ٹی آئی رہنماؤں کو جن بھی مسائل کا سامنا ہے، وہ ان کا اپنا کیا دھراہے۔

شیریں مزاری کے سیاست چھوڑنے پر پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ جیسا عمل ہوتا ہے ویسا رد عمل سامنے آتا ہے، یہ صورتحال دیکھ کر کوئی خوش نہیں ہوتا لیکن 9 مئی کو ریڈ لائن عبور کر لی گئی۔

اس پیشرفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما تیمور جھگڑا نے کہا کہ شیریں مزاری پی ٹی آئی کے وعدوں پر حقیقی معنوں میں یقین رکھتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام لوگوں کو مبارک جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا اس طرح سیاست چھوڑنا ہماری سیاست کو آگے لے جائے گا۔

شیریں مزاری کی گرفتاری

شیریں مزاری کو سب سے پہلے 12 مئی کو دارالحکومت کی پولیس نے 9 مئی کے احتجاج کے بعد مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت ان کے اسلام آباد میں واقع گھر سے گرفتار کیا تھا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 16 مئی کو ان کی رہائی کا حکم دیا اور ان کی نظر بندی کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا تاہم پولیس نے انہیں اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کر لیا۔

17 مئی کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے انہیں اسلحے سے متعلق کیس میں بری کر دیا اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں اسی روز انہیں تیسری مرتبہ پنجاب پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کرلیا۔

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے 22 مئی کو ان کی نظر بندی کا حکم نامہ کالعدم قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد گجرات پولیس نے انہیں چوتھی بار اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

آج پریس کانفرنس سے قبل گجرات کی عدالت کی جانب سے ان کی رہائی کے حکم کے چند لمحوں بعد ہی شیریں مزاری کو بغیر نمبر پلیٹ ویگو میں لے جایا گیا جس پر پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی پانچویں گرفتاری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں